مرزیہ امیرزادے کو وہ وقت یاد ہے جب 2009 میں ایرانی حکام نے انہیں اور ان کی ایک سہیلی کو تہران کی بدنام ایون جیل بھیجتے ہوئے یہ بات کہی،”آپ کو عیسائی ہونے اور انجیل کی تبلیغ کرنے پر گرفتار کیا جاتا ہے۔”
امیرزادے اور ان کی سہیلی مریم رستم پور خوش قسمت تھیں کہ وہ بچ نکلیں۔ ایرانی تعزیراتی قوانین میں اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنے والے ان جیسے لوگوں کے لیے موت کی سزا رکھی گئی ہے۔ ان دونوں نے نو ماہ قید کاٹی اور پھر مذہبی عدالت میں مقدمے کا سامنا کرنے سے پہلے ملک چھوڑ دیا۔
رستم پور کو آج تک وہ بات یاد ہے جو پولیس نے ان سے کہی۔ پولیس نے کہا، “ہم جو چاہتے ہیں ہمیں بتاؤ ورنہ ہم آپ کی پٹائی کریں گے۔” اپنی قید کو یادکرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، “ہم خوفزدہ تھیں، ہم ایک ہی بات جانتی تھیں کہ یہ دنیا میں ہمارا آخری دن ہے۔” دونوں خواتین نے ایران میں اپنی ابتلا کے دنوں کو ایران میں قیدی نامی کتاب میں بیان کیا ہے۔
امیرزادے اور ان کی سہیلی ان ہزاروں ایرانیوں میں شامل ہیں جنہیں ایران میں اپنے مذہبی عقائد کی بنا پر تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایرانی آئین، قوانین اور ضوابط کا اُس “اسلامی معیار کے مطابق” ہونا ناگزیر ہے جس کی بنیاد ریاست کے سرکاری مذہب، جعفری شیعہ اسلام پر ہے۔ ملک کی 90 فیصد سے زیادہ آبادی شیعہ ہے۔
اگرچہ ایرانی آئین، “ایران کے تمام لوگوں” کے مساوی حقوق کو تحفظ دینے کی بات کرتا ہے، تاہم حکومت تین مذہبی اقلیتوں کو ہی تسلیم کرتی ہے جن میں زرتشت، یہودی اور عیسائی شامل ہیں جو “قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی مذہبی رسومات پر عمل کر سکتے ہیں۔”(ان میں امیرزادے اور رستم پور جیسے وہ لوگ شامل نہیں ہیں جواسلام چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کر چکے ہیں۔)
کلر باہیری کو ذاتی تجربے کی بنا پر اندازہ ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ 1981 میں ایرانی حکام نے ان کے گھر پر چھاپہ مار کر ان کے والد کو گرفتار کر لیا جن پر بعد میں “خدا کے خلاف جنگ” اور “زمین پر بدعنوانی” کے الزامات عائد کیے گئے۔ ان کا جرم کیا تھا؟ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ بہائی برادری کے رہنما تھے۔ بہائی مذہب کا شمار ایران میں موجود بہت سے ایسے مذاہب میں ہوتا ہے جنہیں تسلیم نہیں کیا جاتا۔
باہیری کو وہ دن یاد ہے جب وہ اپنی والدہ اور 9 سالہ بھائی کے ساتھ اپنے والد کو دیکھنے جیل پہنچیں۔ وہ کہتی ہیں، “انہوں نے جس طرح میرے بھائی کو دیکھا اس سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ ہمیں الوداع کہہ رہے ہیں۔” ان کے والد پر مذہبی عدالت میں مقدمہ چلا اور اگلے دن انہیں پھانسی دے دی گئی۔
ایران میں بہائی مذہب کے پیروکاروں پر تمام حکومتی ملازمتوں اور سماجی پینشن کے نظام کے دروازے بند ہیں۔ وہ نہ توجائیداد کے مالک بن سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں اپنے خلاف جرائم یا کسی نقصان کے نتیجے میں ازالہ وصول کرنے کا حق حاصل ہے۔

امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے مذہبی آزادی سے متعلق 2016 کی عالمی رپورٹ کے مطابق اُس سال کے آخر تک ایران میں 261 افراد اقلیتی مذاہب سے تعلق کی بنا پر جیلوں میں تھے جن میں کم از کم 115 سنی، 80 بہائی، عیسائیت اختیار کرنے والے 26، 18 صوفی اور 10 یرسانی شامل ہیں۔
ایران میں بہائیوں کے سابق سرکردہ رکن سعید رضائی کو اپنے مذہبی اعتقادات کی بنا پر 10 سال قید کے بعد فروری 2018 میں رہائی ملی (نیچے ٹویٹ دیکھیے) وہ ایران میں بہائی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ان بہت سے رہنماؤں میں شامل ہیں جنہیں جاسوسی، مذہبی تقدس کی توہین اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور سزا دی گئی۔ امریکہ نے ان گرفتاریوں کی مذمت کی ہے۔
Fourth member of #Yaran released – #Bahai World News Service https://t.co/n6exTwhy6a #SaeidRezaie #Bahai #Iran #FreedomtoBelieve #FoRB #PrisonerofConscience
— UK Baha'i OPA (@UKBahaiOPA) February 16, 2018
مخصوص مذاہب کے لیے اعلیٰ تعلیم پر پابندی
1984 میں ایران سے فرار ہونے سے پہلے باہیری نے ایرانی یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے درخواستیں دیں۔ اگرچہ ٹیسٹ میں ان کے نمبر بہت زیادہ تھے تاہم انہیں ان کے مذہبی عقیدے کی بنا پر مسترد کر دیا گیا۔
باہیری کی طرح نکناز افطاحی کو بھی اس لیے اعلیٰ تعلیم تک رسائی سے روک دیا گیا کیونکہ وہ بہائی تھیں۔ اس کی بجائے انہوں نے مخففاً “بی آئی ایچ ای” کہلانے والے اعلیٰ تعلیم کے بہائی ادارے میں داخلہ لیا جسے ایرانی حکومت غیرقانونی تصور کرتی ہے۔ بی آئی ایچ ای کے طلبہ اور اساتذہ کو اس ادارے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے گرفتاریوں کا خدشہ رہتا ہے۔
2010 میں ایران چھوڑنے والی افطاحی کہتی ہیں، “آج میرے بعض ساتھی محض ریاضی، کمپیوٹر سائنس اور طبیعات پڑھانے کے جرم میں قید ہیں۔ اساتذہ اعلیٰ تعلیم سے محروم ایرانی نوجوانوں کو پڑھانے کی محبت میں اپنی زندگیاں داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔”
افطاحی اب امریکی شہری ہیں اور کیلیفورنیا میں اپنے گھر سے بی آئی ایچ ای میں آن لائن کورس پڑھاتی ہیں۔ انہیں اپنے طلبہ اور ساتھیوں کے بارے میں پریشانی لاحق رہتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، “ایرانی حکومت اپنے ہی نوجوانوں کو اچھے مستقبل سے محروم رکھنے کے لیے بہت سی رقم اور توانائی خرچ کر رہی ہے۔ تاہم یہ نوجوان اپنے ملک کی خاطر تمام مشکلات کے باوجود وہیں رہ رہے ہیں۔”