فریدہ اوکومو بالکونی میں کھڑی ہیں اور عمارتیں اور شام کے وقت کا رنگ برنگا آسمان دکھائی رہا ہے (Courtesy of Fridah Okomo)
فریدہ اوکومو معذوروں کے حقوق کی تحریک کے تحت کامیابیاں حاصل کرنے کے 40 سال مکمل ہونے کے سلسلے میں 2022 میں واشنگٹن میں ہونے والی ایک تقریب میں شریک ہیں۔ (Courtesy of Fridah Okomo)

کینیا کی فریدہ اوکومو کے نزدیک جمہوریت کا مطلب کمزور لوگوں کے حقوق کی حفاظت اور انہیں معاشی ترقی میں شامل کرنے کی حمایت کرنا ہے۔

لیکن جب انہوں نے کینیا کی ایک دیہی بستی میں رضاکارانہ طور پر کام کیا تو انہوں نے دیکھا کہ سماعتی معذوری نے کچھ طلباء کے تعلیم حاصل کرنے کے امکانات کو محدود کر رکھا ہے۔ اوکومو نے شیئر امیریکا کو بتایا کہ “میں نے اُن کی جدوجہد کو محسوس کیا اور میں نے اُن کی اپنی جگہ کے لیے اور اُن کے حقوق کی پرزور وکالت کرکے تبدیلی لانے کا ارادہ کیا۔”

اب وہ معذوریوں کے حامل طلباء کی شمولیت کو بڑھانے کے لیے کینیا کے ماہرین تعلیم اور طلباء کے لیے تربیتی مواد تیار کرتی ہیں۔

اوکومو نے امریکی محکمہ خارجہ کے تبادلے کے  ‘کمیونٹی انگیجمنٹ ایکسچینج (سی ای ای) پروگرام میں شرکت کرکے اپنی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کیا۔ اس پروگرام کے تحت امریکہ کی غیرمنفعتی تنطیموں میں کام کرنے کے لیے کینیا اور افریقی ممالک سمیت، 69 ممالک کے 100 ابھرتے ہوئے کمیونٹی لیڈر امریکہ آئے۔

اس پروگرام کے شرکاء نے اپنے تین ماہ کے عملی تجربے کے دوران اپنے ملکوں کی کمیونٹیوں میں اپنے کام کو آگے بڑھانے کے لیے لیڈرشپ کی تربیت حاصل کی۔

اوکومو نے واشنگٹن میں معذوریوں کے حامل افراد کی ایسوسی ایشن کے ساتھ کام کیا جہاں انہوں نے معذوریوں کے حامل طلباء کی سرپرستی کی اور خواندگی کی ‘ریڈنگ پارٹنرز’ نامی تنظیم کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کیا۔

اوکومو نے کہا کہ “سکولوں میں سماجی شمولیت کو فروغ دینے سے معذوریوں کے حامل افراد سے جڑے دقیانوسی تصورات اور تعصبات کا خاتمہ ہو گا۔ تعلیم، بالخصوص نوجوانوں میں سماجی شمولیت کو فروغ دینے کا ایک اہم پہلو ہے۔”

ایستونیا میں روس کی غلط معلومات کو بے اثر بنانا

سوزینا ویوو کھڑکی کے پاس کھڑی ہیں جہاں سے شہر اور دریا کا منظر دکھائی دے رہا ہے (Courtesy of Susanna Veevo)
سی ای ای پروگرام میں شرکت کرنے والیں ایستونیا کی سوزینا ویوو کا قیام نیویارک میں رہا جہاں انہوں نے جمہوریت سے متعلق اپنے کام میں مدد حاصل کرنے لیے ماہرین سے ملاقاتیں کیں۔ (Courtesy of Susanna Veevo)

سوزینا ویوو نے کہا کہ وہ اپنے آبائی ملک ایستونیا میں قائم جمہوریت کو سراہتی ہیں اور اس کا دفاع کرنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھا  رہی ہیں۔

وہ ایستونیا پر روس کی غلط معلومات پھیلانے کی کوششوں کے پڑنے والے اثرات کی تحقیق کے لیے ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک ٹیم کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔ یہ ٹیم سفارشات مرتب کرنے کے بعد انہیں ایستونیا کی حکومت کو پیش کرے گی اور غلط معلومات کے خاتمے کے لیے نصاب تیار کرے گی۔

سی ای ای پروگرام نے ویوو کو ماہرین کے ایک نیٹ ورک سے متعارف کراِیا جس میں شامل افراد نے تحقیق کے کام میں اُن کی مدد کی۔

ویوو نے بتایا کہ لیڈر بننے کے خواہشمند لوگوں اور سرپرستوں کے درمیان اپنے آپ کو پا کر انہیں اس بات پر غور کرنے کے لیے قیمتی وقت میسر آیا کہ وہ اپنی صلاحیتوں میں کس طرح اضافہ کر سکتی ہیں۔

انہوں نے شیئر امیریکا کو بتایا کہ “جس لمحے ہم اپنے ہاں جمہوریت کی صورت حال سے مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور اس کے لیے کام کرنا بند کر دیتے ہیں اُسی لمحے  جمہوریت کی تنزلی کی ابتدا ہو جاتی ہے۔”

انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ چونکہ ایستونیا میں جمہوریت مقابلتاً نئی ہے اس لیے ہماری قوم دیگر جمہوریتوں کے بہترین طریقہائے کار سے سیکھ سکتی ہے۔”

انہوں نے کہا کہ “میں نے جمہوریت اور خواتین کے حقوق کے بارے میں ایک چیز یہ سیکھی ہے کہ یہ کام کبھی بھی ختم نہیں ہوتا۔”