اگر آپ دنیا کو ایک محفوظ جگہ بنانا چاہتے ہیں تو بھوک کےشکار لوگوں کے پیٹ بھریں

ہیٹی میں 2008ء میں آنے والے تباہکن طوفان کے بعد، ہیٹی کی عورتیں اور بچے ہنگامی حالات میں مہیا کی جانے والی خوراک کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ (© AP Images)

جب یورپی یونین نے درآمد کی جانے والی سبزیوں کے معائنوں میں سختی کی تو اس کے نتیجے میں کینیا میں پھلیاں اور مٹر اُگانے والے کسانوں کو نقصان اٹھانا پڑا۔ کینیا کی برآمدات کم ہو کر آدھی رہ گئیں۔ یاد رہے کہ کینیا میں برآمد کی جانے والی زیادہ تر سبزیاں چھوٹَے چھوٹے زمینی قطعات پر اگائی جاتی ہیں ۔

یہی وہ موقع ہوتا ہے جب امریکہ کا بھوک کے خاتمے کا  Feed the Future [ “فیڈ دا فیوچر” یا مستقبل کا پیٹ بھریں] نامی پروگرام حرکت میں آتا ہے۔ اس پروگرام کے تحت قومی بنیادوں پر کینیا کی ایک ایسے پروگرام کی تیاری میں مدد کی گئی جس کے تحت کھیتوں سے منڈیوں تک پہنچانے کےلیے تیار سبزیوں کی نشاندہی کرنے اور ان کے زرعی ادویات سے پاک ہونے کی تصدیق کی جاتی ہے۔ کینیا کی طرف سے اٹھائے جانے والے ان حفاظتی اقدامات سے مطمئن ہونے کے بعد یورپی یونین نے پابندیاں ختم کردیں۔ اس کے نتیجے میں کینیا کی برآمدات کی مقدار اپنی پرانی سطح پر لوٹ آئی۔

بالکل اسی طرح جوزلائن نٹِنیاری کی آمدن بھی پرانی سطح پر واپس آگئی۔ وہ کہتی ہیں، “میں نے اب یہ سکیھ لیا ہے کہ مجھے اپنے فارم کو سبزیاں اگانے کے لیے کیسے تیار کرنا ہے اور سبزیوں کو صاف ستھرا رکھنے اور زرعی ادویات سے پاک رکھنے کو کیسے یقینی بنانا ہے۔ اس طرح ہونے والی آمدنی سے میں اپنے بچوں کی سکول کی فیس ادا کرتی ہوں۔”

1950 اور 1960 کی دہائیوں میں عالمی بھوک سے نمٹنے کے لیے امریکہ کی سوچ یہ تھی کہ فالتو اجناس کو بحری جہازوں کے ذریعے بیرونِ ملک بھجوا دیا جائے۔ خوراک کی عدم دستیابی کی بنا پر ہونے والے فسادات اور عدم استحکام کی روک تھام کے پیش نظر، اس پروگرام کو “فوڈ فار پیس” یعنی خوراک برائے امن کا نام دیا گیا تھا۔

مقصد اب بھی امن ہی ہے مگر طریقہائے کار بدل گئے ہیں۔ صدر اوباما کے “فیڈ دا فیوچر” پروگرام کے تحت دنیا کے کسانوں کی اپنے لیے زیادہ غذائیت والی سبزیاں اور اجناس، کثرت سے اگانے پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔

صدر نے 20 جولائی کو “گلوبل فوڈ سکیورٹی ایکٹ”  یعنی عالمی غذائی سلامتی کے قانون پر دستخط کیے۔ اس قانون کے تحت اب اس چیز کو یقینی بنا دیا گیا ہے کہ یہ پروگرام اگلے سال جنوری میں وائٹ ہاوًس میں تبدیلی آنے کے بعد بھی جاری رہے گا اور 2017 اور 2018 کے سالوں کے دوران خرچ کرنے کے لیے ایک ارب ڈالر دستیاب ہوں گے۔

صدر اوباما نے وائٹ ہاوًس کی عالمی ترقی کی سربراہی کانفرنس کو بتایا، “آج ہم نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ اکیسویں صدی میں کوئی بچہ بھی رات کو بھوکا نہیں سوئے گا۔” جب اوباما نے یہ کہا کہ انہوں نے اس بِل پر ابھی ابھی دستخط کیے ہیں تو کانفرنس میں موجود بین الاقوامی ترقی کے لیڈروں، سرمایہ کاروں، سفارت کاروں اور سول سوسائٹی کے لیڈروں پر مشتمل 800 سامعین خوشی سے اچھل پڑے۔

اس کرہ ارض پر ہر 9 میں سے ایک شخص رات کو بھوکا سوتا ہے۔ اپنی صدارت کے اوائل میں صدر اوباما نے دائمی بھوک کا مقابلہ کرنے کی کوششوں کو تیز تر کرنے کے لیے دیگر عالمی لیڈروں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ تین سالوں میں امریکہ نے 3.5 ارب ڈالر کی رقم مہیا کی اور آٹھ ممالک کے ایک اور گروپ نے 18.5 ارب ڈالر خرچ کیے۔ اوباما نے کہا اس طرح ہم سب نے مل کر “عالمی بھوک، غربت اور غذا کی کمی کی طوفانی موجوں کا رخ” موڑ دیا ہے۔

فیڈ دا فیوچر پروگرام کی مرکزی توجہ افریقہ، ایشیا، لاطینی امریکہ اور کیریبین کے 19 ممالک پر مرکوز ہے۔ صرف گزشتہ سال اس پروگرام کی وجہ سے چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والے 90 لاکھ  کسانوں کی آمدنیوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ ان میں ایک بڑی تعداد عورتوں کی ہے۔ مزید براں، اس پروگرام اور صحت کے عالمی امریکی پروگرام کے تحت، 1 کروڑ 80 لاکھ بچوں کی صحت بخش غذا حاصل کرنے میں مدد کی گئی۔

امریکہ  انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر اور دنیا کو محفوظ تر بنانے کے لیے سرمایہ کاری کرتا ہے۔ قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس کا کہنا ہے، “غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو بھوک اور افلاس کی وادیوں میں دھکیلنے کے ساتھ ساتھ فسادات کی آگ کو بھی بھڑکاتے ہیں۔ دنیا بھر میں غذائیت کی کمی اور بھوک کو دور کرنے سے بین الاقوامی امن اور سلامتی کو فروغ ملتا ہے۔”