امریکہ، جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی) میں پھوٹ پڑنے والی ایبولا کی تازہ ترین وبا کو قومی اور عالمی ترجیح کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ جب 2018ء میں یہ وبا پہلی مرتبہ پھیلی تو اس وبا کے خاتمے کے لیے امریکہ نے صحت کی عالمی تنظیم اور ڈی آر سی حکومت کی کوششوں میں مدد کی۔ موجودہ وبا پر قابو پانے میں کامیابی کا انحصار بین الاقوامی برادری کے مربوط ردعمل اور زیادہ مقدار میں مالی امداد پر ہوگا۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ میں سمندروں اور بین الاقوامی ماحولیات اور سائنسی امور کی مارسیا برنیکٹ نے 24 جولائی کو امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی ذیلی کمیٹی کو بتایا، “کسی بھی جگہ پایا جانے والا متعدی بیماری کا خطرہ، ہر جگہ متعدی بیماری کا خطرہ بن سکتا ہے۔” امریکہ “ایبولا کی منتقلی کو روکنے، اس کے مریضوں کے علاج میں مدد کرنے اور اس وبا کے پھوٹنے سے ہونے والے جانی نقصان کو کم سے کم کرنے کا پختہ عزم کیے ہوئے ہے۔”
امریکہ، ایبولا کے علاج کے لیے کسی ایک ملک کی طرف سے سب سے زیادہ عطیات دینے والا ملک ہے۔ بین الاقوامی ترقی کے امریکی ادارے یعنی یو ایس ایڈ نے 24 جولائی کو ایبولا کی حالیہ ترین وبا کے خاتمے میں مدد کی خاطر تین کروڑ اسی لاکھ ڈالر کی امداد کی فراہمی کا اعلان کیا۔ اس رقم میں صحت کی عالمی تنظیم کو دی جانے والی ایک کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کی نئی مالی امداد بھی شامل ہے۔ اس طرح یو ایس ایڈ کے ذریعے فراہم کی جانے والی مجموعی امداد 13 کروڑ 60 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ امریکی حکومت ڈی آر سی کے اس وبا سے متاثر نہ ہونے والے علاقوں میں تیاری کے لیے کانگو کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک برونڈی، روانڈا، جنوبی سوڈان اور یوگنڈا میں بھی مدد کر رہی ہے۔ اس مدد کا مقصد یہ ہے کہ دیگر امور کے علاوہ سرحدوں پر اس بیماری کی تشخیص کے لیے لوگوں کا طبی معائنہ کرنے کی گنجائش کو مضبوط اور اس متعدی بیماری کے خاتمے اور اس پر قابو پانے کے طریقوں کو بہتر بنایا جا سکے۔
28 جولائی تک، تاریخی ریکارڈ کے مطابق دوسری سب سے بڑی وبا سے 1,782افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اس کے مصدقہ یا ممکنہ مریضوں کی تعداد 2,659 تک پہنچ چکی ہے۔

امریکہ کی طرف سے کیے جانے والے امدادی کاموں میں رابطہ کاری اور جتنی جلدی ممکن ہو سکے اس وبا کو ختم کرنے کی خاطر، امریکہ نے تباہی کی صورت میں مدد کرنے والی ٹیم (ڈی اے آر ٹی) تعینات کی ہے۔ یہ ٹیم امدادی کاموں اور صحت کے ماہرین پر مشتمل ہوتی ہے اور ان کا تعلق یو ایس ایڈ اور بیماریوں پر قابو پانے اور ان کا خاتمہ کرنے والے مرکز سے ہوتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ اور دیگر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر یہ ٹیم ایبولا کی وبا کے خاتمے اور اس پر قابو پانے کے لیے کام کرتی ہے، کارکنوں کی تربیت کرتی ہے اور اس بیماری سے ہلاک ہونے والوں کے لیے محفوظ اور باوقار تدفین کا اہتمام کرتی ہے۔ کنشاسا میں امریکی سفارت خانہ بھی ڈی آر سی میں کیے جانے والے کاموں میں پوری امریکی حکومت کی مدد کرنے کے لیے مکمل طور پر تعاون کر رہا ہے۔
17 جولائی کو صحت کی عالمی تنظیم نے اس وبا کو عالمی تشویش کی حامل عوام الناس کی صحت کی ہنگامی صورت حال قرار دیا اور گوما میں حال ہی میں ایبولا کا شکار ہونے والے ایک فرد، صحت کے عملے کو نشانہ بنانے والے تشدد، اور اس وبا کی طویل ترین مدت کے حوالے دیئے-
وسط جولائی میں صحت کی عالمی تنظیم نے اپنے شراکت کاروں سے اگلے چھ ماہ کے لیے 28 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی مدد کا کہا۔ یہ یقینی بنانے کے لیے کہ ایبولا کے لیے معقول مقدار میں پیسے دستیاب ہوں، امریکہ متحرک انداز سے برطانیہ، یورپی یونین اور عالمی بنک جیسے دیگر عطیات دہندگان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ عالمی بنک نے جولائی کے اواخر میں امداد اور ادھار کی شکل میں 30 کروڑ ڈالر کا بندوبست کرنے کا اعلان کیا۔
اس وبا پر قابو پانے اور خطے میں اس کے پھیلنے کو روکنے کے لیے ابھی بھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
24 جولائی کو محکمہ خارجہ میں افریقی امور کے اسسٹنٹ سیکرٹری ٹیبور ناگی نے سینیٹ کی ذیلی کمیٹی کو بتایا، “وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ایبولا کی وبا کے سلسلے میں کی جانے والی اپنی کوششیں دگنی کر دیں۔ کیونکہ بہت ہی کم ممالک ایبولا سے اکیلے نمٹنے کے لیے تیار ہیں، لہذا ہمارا اپنے تمام شراکت کاروں سے کہنا ہے کہ وہ اِن کاوشوں میں شامل ہوں۔”