اسماعیل بخشی ایرانی جیلوں میں تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے کی وجہ سے آج جیل میں پڑے ہیں۔
ایرانی فورسز نے بخشی کو نومبر 2018 میں جنوبی ایران کے شہر اہواز میں مزدوروں کی جانب سے کیے جانے والے ایک احتجاج میں شریک ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا اور وحشیانہ طریقے سے مارا پیٹا۔ وہ تین دن تک ایک کوٹھڑی میں قیدِ تنہائی میں بےسدھ پڑے رہے۔
جیل میں گزرے اپنے 25 دنوں کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے جنوری میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا، “یہ درد اتنا ناقابل برداشت تھا کہ نیند کا آنا ناممکن ہو گیا تھا۔ اپنی رہائی کے کئی ہفتے گزر جانے کے بعد بھی مجھے اپنی ٹوٹی ہوئی پسلیوں، بائیں کان اور فوطوں میں ابھی تک ناقابل برداشت درد محسوس ہوتا ہے۔”
ایران میں انسانی حقوق کے مرکز نے بتایا کہ اس پوسٹ کے فوراً بعد سکیورٹی فورسز نے بخشی کو دوبارہ گرفتار کر لیا۔ اس مرکز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہادی غائمی کہتے ہیں، “تشدد کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دینے کی بجائے ایرانی حکام تشدد کا شکار ہونے والوں کو سزا دیتے ہیں۔”
Workers' rights activist Esmail Bakhshi has been detained in #Iran since January 2019. He was imprisoned for peacefully advocating labor rights and publicly stating that he was tortured in the custody of the Intelligence Ministry–where he remains to this day. #FreeEsmailBakhshi pic.twitter.com/4sYouniFVd
— IranHumanRights.org (@ICHRI) June 27, 2019
ٹوئٹر کی عبارت کا خلاصہ
محنت کشوں کے حقوق کے سرگرم کارکن اسماعیل بخشی جنوری 2019 سے ایران میں قید ہیں۔ اُن کو پرامن طور پر محنت کشوں کے حقوق کی حمایت کرنے اور سرعام یہ کہنے پر جیل میں ڈالا گیا کہ ان پر انٹیلی جنس کی وزارت کی تحویل میں تشدد کیا گیا تھا۔ وہ آج بھی اسی وزارت کی قید میں ہیں۔ اسماعیل بخشی کو رہا کرو۔
بخشی کا شمار اُن 800 سیاسی اور ضمیر کے قیدیوں میں ہوتا ہے جن پر جیلوں میں شب و روز تشدد کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی لاتعداد بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے اکٹھے کیے گئے شواہد کی مدد سے محکمہ خارجہ کی سال 2018 کی انسانی حقوق کی رپورٹ میں ایرانی جیلوں کے اندر وسیع پیمانے پر کیے جانے والے تشدد، آبرو ریزیوں اور غیر انسانی حالات کو بے نقاب کیا گیا ہے۔
‘ظالمانہ اور طویل عرصے سے کیا جانے والا تشدد’
سال 2018 کی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق کی رپورٹ میں اوین جیل کے وارڈ نمبر 209 اور 2 کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ وہ جگہیں ہیں جن کے بارے میں گواہ کہتے ہیں کہ انقلابِ اسلامی کے پاسداران کی سپاہ (آئی آر جی سی) ایرانی حکومت کے سیاسی مخالفین پر ظالمانہ اور طویل مدتی تشدد کرتی ہے۔ اس تشدد کے مثالیں ذیل میں دی جا رہی ہیں:
- پھانسی یا آبرو ریزی کی دھمکیاں۔
- نیند سے محرومی۔
- بجلی کے جھٹکے اور جلانا۔
- شدید اور بار بار پٹائی۔
اس رپورٹ کے مطابق آئی آر جی سی کی تشدد کرنے کی ایک اور تکنیک کا نام “معجزاتی پلنگ” ہے جس میں زیر حراست افراد کو پلنگ کے فریم سے باندھ کر اس وقت تک بار بار کوڑے مارے جاتے ہیں اور بجلی کے کرنٹ لگائے جاتے ہیں جب تک وہ “اقبال جرم” نہ کر لیں۔
‘وحشی جانوروں’ جیسا یہ رویہ کہاں سے آیا ہے؟
ایران میں انسانی حقوق کے مرکز کے مطابق فروری میں قرچک جیل میں ایرانی جیل کے گارڈوں نے 20 قیدی عورتوں کی پٹائی کی اور اُن کو کھانے، اور طبی امداد کے بغیر یخ بستہ کوٹھڑیوں میں قید تنہائی میں ڈال دیا۔ اِن عورتوں کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ اپنی رہائی کی تاریخ کے بارے میں ایک چھوٹا سا احتجاج کر بیٹھیں تھیں۔
اِن میں سے ایک، الحام احمدی کو جیل کے خراب حالات کے بارے میں آواز اٹھانے کی وجہ سے 148 کوڑوں کی اضافی سزا دی گئی۔ اُن کا شمار صوفی گونابادی مسلک کے اُن 208 افراد میں ہوتا ہے جنہیں 2018ء کے احتجاج میں شرکت کرنے کی وجہ سے جیل میں بند کرنے کی سزا دی گئی۔
In Iran, this is what happens when one talks about terrible prison conditions. #ElhamAhmadi, an imprisoned dervish at the notorious Gharchak prison, reported on prison conditions, for which she's been sentenced to 148 lashes. Meanwhile, authorities deny the existence of torture pic.twitter.com/Cuyt4tHhkc
— Masih Alinejad 🏳️ (@AlinejadMasih) January 15, 2019
ٹوئٹر کی عبارت کا خلاصہ:
مسیح احمدی نژاد:
ایران میں جب کوئی جیل کے خوفناک حالات کی بات کرتا ہے تو وہی کچھ ہوتا ہے جو کچھ الحام احمدی کے ساتھ ہوا ہے۔ الحام احمدی ایک درویش ہیں جو قرچک جیل میں قید ہیں۔ انہوں نے جیل کے حالات کے بارے میں بات کی جس کی وجہ سے انہیں 148 کوڑوں کی سزا دی گئی۔ اس کے برعکس، حکام تشدد کے وجود کا برابر انکار کرتے چلے آ رہے ہیں۔
ٹوئٹر پر ایرانی صحافی ماہتاب غولیزادے نے پوچھا، “کیا آپ کو قرچک جیل میں ایک چھوٹے سے احتجاج پر [جیل کے] گارڈوں کو ایک بند جگہ میں قیدیوں پر کھلا چھوڑنے اور اُن پر آنسو گیس استعمال کرنے اور اُن کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کی ضرورت تھی؟ یہ وحشی جانوروں جیسا بے رحم رویہ کہاں سے آیا ہے۔؟”