ایرانی جیلوں کے باہر، خاندان اپنے پیاروں کی خیریت جاننے کے لیے پریشان حال

جنوری کے اوائل میں تہران کی بدنامِ زمانہ اوین جیل کے باہر ہجوم میں اُس وقت اضافہ ہونا شروع ہو گیا جب حراست میں لیے جانے والے لوگوں کے خاندان کے افراد اور دوست اپنے پیاروں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے اکٹھے ہونا شروع ہوئے۔ اِن لوگوں کو حکام نے حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے کی پاداش میں گرفتار کرکے جیل میں بند کر رکھا تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ماگدالینا مغربی نے کہا، “حراست میں لیے جانے اِن افراد کے ساتھ جو کچھ ہوا اُسے خفیہ رکھنا اور شفافیت کا نہ ہونا خطرے کی گھنٹیاں ہیں۔ تشدد کے استعمال سمیت ہم طویل عرصے سے ایرانی جیلوں کے ہولناک حالات کو دستاویزی شکل میں محفوظ کرتے چلے آ رہے ہیں۔” اُنہوں نے بتایا کہ اُن کا ادارہ “آزاد، غیر جانبدار اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہے۔”

Young man in uniform with bill cap standing in a hallway (© Morteza Nikoubazl/Reuters)
تہران کی ایون جیل میں جیل کا ایک گارڈ ہال میں کھڑا ہے۔ (© Morteza Nikoubazl/Reuters)

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اوین جیل میں کم از کم تین قیدی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اِن میں سینا قنبری بھی شامل ہیں جن کے بارے میں ایرانی حکومت کا دعوٰی ہے کہ انہوں نے خودکشی کی ہے۔ مگر سرگرم کارکن سمجھتے ہیں کہ اُنہیں قتل کیا گیا ہے۔

ایرانی دارالحکومت سے چند گھنٹوں کی مسافت پر واقع ایک اور جگہ سے بھی اسی طرح کی کہانیاں سننے کو ملی ہیں۔ مرکزی صوبے کے دارالحکومت، اراک میں دسمبر کے اواخر یا جنوری کے اوائل میں 22 سالہ محمد حیدری کی موت بھی حراست کے دوران واقع ہوئی۔ حیدری کے وکیل نے ایران میں انسانی حقوق کے مرکز کو بتایا کہ ایرانی حکام جب یہ کہتے ہیں کہ اس نے خودکشی کی ہے تو وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اراک کے ایک رہائشی محمد نجفی نے ایران میں انسانی حقوق کے مرکز کو انٹرویو میں بتایا، “یہ نوجوان احتجاج کر رہا تھا۔ انہوں نے اسے گرفتار کیا اور پھر مار مار کر اسے ہلاک کر دیا۔ اب وہ اس کی نیک نامی کو بھی تباہ کرنا چاہتے ہیں۔”

امریکہ کے محکمہِ خارجہ کی ترجمان، ہیدر نوورٹ نے ایران کی جیلوں میں قید احتجاج کرنے والے تمام افراد کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ایران میں معلومات حاصل کرنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس مشکل نے اُن لوگوں کے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے جو اپنے پیاروں کے بارے میں سوالات کے جواب جاننا چاہتے ہیں۔ “رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز” [سرحدوں سے ماورا صحافیوں] نے خبردار کیا ہے کہ ایرانی حکومت ایران سے باہر واقع  فارسی زبان کے میڈیا کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

رپورٹرز ودآ ؤٹ بارڈرز کے رضا معینی نے بتایا کہ انٹرنیٹ تک رسائی میں رخنے ڈالنے اور سوشل نیٹ ورکس کو بند کرنے کے بعد، ایران اِن احتجاجی مظاہروں کو “بہت سے ایرانیوں کے زیر استعمال آزادانہ اور خودمختارانہ خبروں اور معلومات کے آخری ذرائع کو بھی بند کرنے کی خاطر ایک بہانے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔”

ایک اندازے کے مطابق ایران میں حراست میں لیے گئے 3,400 افراد کے خاندانوں کے پاس بعض اوقات واحد راستہ جیل کی دیواروں کے باہر کھڑا ہونا رہ گیا ہے۔ “میں اور میری بیوی ہر روز یہاں آتے ہیں۔” یہ بات صرف اپنا پہلا نام حسین بتانے والے ایک [قیدی کے] والد نے نیویارک ٹائمز کو دیئے گئے اپنے حالیہ انٹرویو میں بتائی۔