ایک نئی رپورٹ کے مطابق ایرانی حکومت نے نومبر 2019 میں ہونے والے ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے بعد من مانی کرتے ہوئے ہزاروں احتجاجی مظاہرین کو گرفتار کیا، درجنوں پر تشدد کیا اور بہت سوں کو سزائیں دیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 2 ستمبر کی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ایرانی حکومت نے من گھڑت الزامات کے تحت 500 سے زائد احتجاجی مظاہرین پر مقدمات قائم کیے۔ اس رپورٹ میں کوڑوں، بجلی کے جھٹکوں اور مصنوعی پھانسیوں کو “تشدد کی وبا” قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ کہتی ہے، “ایرانی حکام نے ظلم و ستم کی ایک ایسی مہم چلائی جس میں جان بوجھ کر مہلک طاقت استعمال کرنے کے نتیجے میں سینکڑوں اموات ہوئیں اور چند دنوں کے اندر 7,000 مردوں، عورتوں اور 10 سالہ بچوں سمیت کئی ایک بچوں کو گرفتار کیا۔”

“انسانیت کی پامالی: ایران کے 2019 نومبر کے احتجاجی مظاہروں کے بعد سے بڑے پیمانے پر کی جانے والی گرفتاریاں، گمشدگیاں اور تشدد” کے عنوان سے جاری ہونے والی رپورٹ، حکومت کی اپنے عوام کے خلاف بربریت کے واقعات میں ایک اور اضافے کی تفصیل بیان کرتی ہے۔
ایران کے لیڈروں نے اسی مہینے ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے خلاف کی جانے والی پرتشدد کاروائیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے انٹرنیٹ بند کر دیا۔ ابتدا میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے ردعمل سے شروع ہونے والے اِن احتجاجی مظاہروں کا رخ جلد ہی حکومت کی اقتصادی بد انتظامی کی جانب مڑ گیا۔
اطلاعات کے مطابق سکیورٹی فورسز نے جنوب مغربی ایران میں ماھشہر کے ایک ہولناک واقع میں 150 شہریوں کے قتل عام سمیت، 1,500 افراد کو ہلاک کیا۔ تقریباً ایک ماہ سے کچھ دن اوپر گزر جانے کے بعد، حکومت نے ایسے خاندانوں کے لوگوں کو گرفتار کرلیا جو احتجاجی مظاہروں میں ہلاک ہونے والے اپنے رشتہ داروں کے لیے چہلم کی دعائیہ تقریبات کے پروگرام بنا رہے تھے۔
The good people of Iran want the same things as each of us: peace, freedom, and prosperity. @AmnestyIran’s new report details the regime’s corruption and brutality, including death sentences after sham trials, torture of prisoners, and harassment of their family members.
— Secretary Pompeo (@SecPompeo) September 10, 2020
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ بتاتی ہے کہ حکومت نے عوامی نظروں سے اوجھل بھی تشدد کا ایک سلسلہ جاری رکھا۔ نگرانی کے نظام کو استعمال کرتے ہوئے، سکیورٹی کے اہلکاروں نے پرامن احتجاجی مظاہرین کو اُن کے گھروں یا کام کی جگہوں سے گرفتار کرنے کے لیے، اُن کا پیچھا کیا۔ جیل کے سپاہیوں نے جرائم کے اعتراف کے لیے تشدد کا استعمال کیا۔ سرکاری اہلکاروں نے فرار ہونے والے مظاہرین کے اہل خانہ کو ہراساں کیا اور دھمکیاں دیں۔
انٹیلی جنس ایجنٹوں نے احتجاجی مظاہرین کو ہفتوں یا مہینوں تک حراست میں رکھا۔ ایک 16 سالہ لڑکا جب پانچ دنوں کے بعد گھر لوٹا تو اُس کے بازو اور ٹانگیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ جیل کے سپاہیوں نے ایک قیدی کے ہاتھوں اور پاؤں کو اُس کی کمر کے پیچھے باندھ کر لوہے کے ایک ڈنڈے سے لٹکا دیا۔ تشدد کے اس طریقے کو جیل کے محافظ “چکن کباب” کہتے ہیں۔
حکومت نے اہوازی عربوں، آذربائیجانی ترکوں اور کردوں سمیت احتجاجی مظاہروں میں شرکت نہ کرنے والے اقلیتوں کے نسلی گروپوں سے تعلق رکھنے والے فعال کارکنوں کو بھی سکیورٹی کے لیے خطرے کا بہانہ بنا کر گرفتار کر لیا۔
امریکہ اور اقوام متحدہ ایک طویل عرصے سے ایرانی حکومت کو اس کی بربریت کا قصور وار ٹھہراتے چلے آ رہے ہیں۔ اقوم متحدہ نے دسمبر 2018 میں لمبے عرصے سے جاری ایران کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اس کی سرزنش کرتے ہوئے ایک قرداد منظور کی اور ایران سے مطالبہ کیا کہ “کسی پر بھی تشدد یا دیگر ظالمانہ، غیر انسانی یا ہتک آمیز سلوک نہ کیا جائے اور سزا نہ دی جائے۔”
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان مورگن اورٹیگس نے کہا کہ نومبر 2019 کی کاروائیوں کے اثرات پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ ایرانی حکومت کی بربریت کا پردہ چاک کرتی ہے۔
انہوں نے 10 ستمبر کو اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، “سرکاری وکلاء سے لے کر ججوں، جیلوں تک، کہیں بھی انصاف نہیں ہے — صرف تشدد، کوڑے مارنے، جنسی زیادتیاں اور جبری گمشد گیاں ہیں۔”