ایرانی حکومت کا اپنے مظالم پر پردہ ڈالنے کے لیے انٹرنیٹ کا بلیک آؤٹ

اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ ہوئے ایک آدمی سڑک پر کھڑا ہے۔ (© AFP/Getty Images)
16 نومبر کو ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک آدمی نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف کیے جانے والے مظاہروں کے دوران آنسو گیس سے بچنے کے لیے اپنا چہرہ ڈھانپ رکھا ہے۔ (© AFP/Getty Images))

ایرانی حکومت نے پورے ملک میں انٹرنیٹ کو جس طرح بند کیا ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ قریب قریب اِس مکمل بلیک آؤٹ نے ایرانی عوام کو خوفناک نقصانات پہنچائے ہیں جن میں حکومت کی پُرتشدد کاروائیاں اور عام شہریوں کی ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔ دنیا کو اِن نقصانات کے بارے میں علم ہونے لگا ہے۔

پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں پھوٹ پڑنے والے مظاہروں کے بعد 16 نومبر کو حکومت نے انٹرنیٹ تک رسائی بند کر دی۔ حکومت کی جانب سے اِن مظاہروں میں رخنے ڈالنے کی کوششوں کے باوجود یہ مظاہرے ملک کے 100 شہروں اور قصبوں میں پھیل گئے۔

صدر ٹرمپ نے ملک میں عدم استحکام اور مظاہروں کے جواب میں حکومتی ردعمل کا ذمہ دار ایران کے لیڈروں کو ٹھہرایا۔ ٹرمپ نے 21 نومبر کو اپنی دو ٹویٹس میں کہا، “وہ یہ سوچتے ہوئے شفافیت بالکل نہیں چاہتے کہ دنیا کو اُن اموات اور المیوں کی خبر نہیں ہوگی جن کی وجہ ایرانی حکومت بنی ہوئی ہے!”

ایسے میں ٹویٹ کرنے والے حکومتی اہلکاروں کی منافقت اس وقت کسی سے ڈھکی چھپی نہ رہی جب وہ خود تو یہ آزادی استعمال کر رہے تھے اور عوام کو اس کے استعمال کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔

22 نومبر کو امریکہ کے وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے کہا، “اگرچہ ایرانی لیڈروں اور اُن کے کاسہ لیسوں کو خود اپنے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا اکاؤنٹوں تک بدستور رسائی حاصل ہے مگر وہ اپنے عوام کو اظہار اور رابطے کے اِن بنیادی ذرائع سے محروم کیے ہوئے ہیں۔” وزیر خارجہ نے یہ بات ملک میں انٹرنیٹ کے بندش میں مدد کرنے والے ایران کے وزیر اطلاعات اور مواصلاتی ٹکنالوجی پر پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہی۔

ملک سے باہر رہنے والی حکومت کی ایک ناقد اور ایرانی سرگرم کارکن، مسیح نژاد نے سوشل میڈیا کی کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ وہ اُس وقت تک ایرانی حکومت کے اہلکاروں کے انٹرنیٹ پر پوسٹ کیے جانے والے میسیجز کو روک دیں جب تک ایرانی عوام دوبارہ آن لائن نہیں آ جاتے۔ اس سلسلے میں وہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کے بارے میں انسانی حقوق کے گروپوں کی رپورٹوں کا حوالہ دیتی ہیں۔

انہوں نے 18 نومبر کو ٹویٹ کیا، “ایرانی مظاہروں میں 100 سے زائد ہلاکتوں اور 1000 سے زائد گرفتاریوں کے بعد میں یورپی یونین اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھیں۔ اور میرا ٹوئٹر، انسٹاگرام، فیس بک سے مطالبہ ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ کے اہلکاروں پر اُس وقت تک پابندی لگا دیں جب تک انٹرنیٹ کی رسائی بحال نہیں کر دی جاتی۔”

معاشی افراتفری اور بدعنوانی کے خلاف مظاہروں کو ناکام بنانے کے لیے ایرانی حکومت انٹرنیٹ پر پابندی لگانے کی ایک تاریخ رکھتی ہے۔

یورپی یونین نے ایران کے سکیورٹی کے اہلکاروں سے “مظاہروں سے نمٹتے وقت زیادہ سے زیادہ صبر سے کام لینے کا کہا ہے” اور 21 نومبر کے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، “اظہارِ آزادی اور اجتماع کے حقوق کی ہرصورت میں ضمانت دی جانی چاہیے۔”

کیمرے کی طرف سکرین کا رخ کیے ہوئے ہاتھ میں پکڑا ہوا ایک سمارٹ فون۔ (© Atta Kenare/AFP/Getty Images)
تہران، ایران میں ایک دفتر میں 17 نومبر کو ایک آدمی نے جب انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی تو اُس کے فون پر “انٹرنیٹ کی عدم دستیابی” کا میسیج نمودار ہوگیا۔ (© Atta Kenare/AFP/Getty Images)

انٹرنیٹ تک رسائی کو دیکھنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم، نیٹ بلاکس کے تخمینے کے مطابق ایران کا 130 گھنٹوں کا انٹرنیٹ بلیک آؤٹ پہلے ہی ایران کی دگرگوں معیشت کو 300 ملین ڈالر میں پڑ چکا ہے۔

عام ایرانیوں کے لیے انٹرنیٹ آہستہ آہستہ واپس آ رہا ہے۔ انٹرنیٹ کی کنکٹیوٹی [جڑت] 5 فیصد سے بھی نیچے گر گئی تھی۔ نیٹ بلاکس نے ٹویٹ کیا، 22 نومبر تک یہ 15 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

پومپیو نے اس کا قصور وار آن لائن اور سڑکوں پر ایرانی عوام کی اظہارِ رائے کی آزادی کے خلاف حکومتی کاروائیوں کو ٹھہرایا۔

پومپیو نے کہا، “امریکہ ایک ایسی جابر حکومت کے خلاف ایرانی عوام کی جدو جہد میں جو انہیں گرفتار اور قتل کرتے ہوئے خاموش کراتی ہے، ایرانی عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔”