ایک بڑے جہاز کے قریب سے گزرتی ہوئی چھوٹی کشتیاں۔ (U.S. Navy)
15 اپریل کو خلیج فارس میں امریکی بحریہ کے ایک جہاز کے قریب سے گزرتی ہوئی پاسدران انقلاب اسلامی کی کشتیاں۔ (U.S. Navy)

ایرانی حکومت کا اپریل میں ہانگ کانگ کے پرچم بردار ٹینکر پر قبضہ اور امریکی دستوں کی ہراسانی اس کے تشدد کے حالیہ ترین نمونے ہیں۔

گزشتہ برس اس حکومت نے یا اس کے آلہ کاروں نے ایک امریکی ڈرون مار گرایا، سعودی عرب کے تیل کے کنووں پرحملہ کیا اور داعش کا مقابلے کرنے والے دستوں پر گولہ باری کی جس سے امریکی اور برطانوی اہل کار ہلاک ہوئے۔

صدر ٹرمپ نے 22 اپریل کو ایرانی لیڈروں کو مزید جارحیت سے باز رہنے کی تنبیہ کی۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا، “اگر وہ سمندر میں ہمارے جہازوں کو ہراساں کریں تو اس صورت میں، میں نے امریکی بحریہ کو کسی بھی ایک یا ساری توپ بردار کشتیوں کو تباہ کرنے کی ہدایات دے دی ہیں۔”

امریکہ اس حکومت کو جوہری ہتھیاروں کے حصول کو ترک کرنے اور جارحیت سے باز رہنے پر مجبور کرنے کے لیے اقتصادی پابندیوں کو استعمال کر رہا ہے۔ اس سال کے اوائل میں امریکی وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے کہا، “ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ ایران ایک عام ملک جیسا رویہ اپنائے۔”

سمندری جہازوں کو ہراساں کرنا

ایران کی پاسداران انقلاب کی سپاہ (آئی آر جی سی) کو امریکہ کی طرف سے دہشت گرد نامزد کیا گیا ہے۔ آبنائے ہرمز کے نزدیک جہازوں پر حملے کرنا آئی آر جی سی کا معمول بن چکا ہے۔ یہاں سے ہر روز سمندر سے جانے والے تیل کا ایک تہائی حصہ گزرتا ہے۔

تیل کے ٹینکر کے گرد چکر لگاتا ہوا ایک جہاز۔ (© Morteza Akhoondi/Tasnim News Agency/AP Images)
پاسداران انقلاب اسلامی کی سپاہ کی بحریہ کا ایک جہاز 21 جولائی 2019 کو برطانوی پرچم بردار جہاز “سٹینا امپیرو” پر قبضہ کرنے کے بعد اس کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ (© Morteza Akhoondi/Tasnim News Agency/AP Images)

صرف مئی اور جون 2019 میں آئی آر جی سی کی بحریہ نے مقناطیسی بارودی سرنگوں کے ساتھ آبنائے ہرمز میں چھ ٹینکروں پر حملے کیے۔ جولائی میں آئی آر جی سی نے برطانوی پرچم بردار جہاز “سٹینا امپیرو” پر قبضہ کرے کے بعد اس کے عملے کو ہفتوں تک یرغمال بنائے رکھا۔

خود مختاری کے لیے خطرہ

اس حکومت کے آلہ کاروں نے عراق اور شام میں داعش سے علاقے آزاد کرانے والی اتحادی فورسز پر بار بار حملے کیے۔ ایک ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کی جانب سے 27 دسمبر 2019 کو کیے جانے والے راکٹ حملے میں ایک امریکی سویلین ٹھیکیدار ہلاک اور امریکی فوجی اور عراقی اہل کار زخمی ہوئے۔

اس کے فوراً بعد امریکی فوج نے اس کا جواب عراق اور شام میں ایرانی حمایت یافتہ جنگجوؤں پر دفاعی فضائی حملوں کی صورت میں دیا۔ اُس وقت پومپیو نے تنبیہ کی کہ امریکہ “اسلامی جمہوریہ ایران کی اُن کاروائیوں کو برداشت نہیں کرے گا جن سے امریکی مرد اور عورتوں کی جانوں کو خطرات لاحق ہوں۔”

شک کیا جاتا ہے کہ 11 مارچ کے اُس حملے کے پییچھے ایک آئی آر جی سی حمایت یافتہ ملیشیا کا ہاتھ ہے جس میں دو امریکی اور ایک برطانوی فوجی ہلاک ہوا۔

تیل صاف کرنے کے پلانٹ کے ایک تباہ شدہ ٹاور کے سامنے کھڑے لوگ۔ (© Amr Nabil/AP Images)
20 ستمبر 2019 کو عبقیق، سعودی عرب میں سعودی آرامکوکمپنی کے خام تیل کو صاف کرنے کے پلانٹ کے تباہ شدہ ٹاور کا ایک منظر۔ (© Amr Nabil/AP Images)

اس سے پہلے ستمبر 2019 میں ایرانی حکومت نے سعودی علاقے میں تیل کے کنووں کو نشانہ بنایا اور عبقیق اور خوریس میں تیل صاف کرنے کے کارخانوں کو ڈرونوں اور میزائلوں کو استعمال کرتے ہوئے نقصان پہنچایا۔ اگرچہ ایران کے لیڈروں نے اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا تاہم برطانیہ، فرانس اور جرمنی، امریکہ کے ساتھ اس حملے پر ایرانی حکومت کی مذمت کرنے میں شریک ہوئے۔

جون 2019 میں، آئی آر جی سی نے بین الاقوامی فضائی حدود میں امریکی ڈرون کو مار گرایا۔ ٹرمپ نے اس وقت خبردار کیا تھا کہ یہ بلا اشتعال حملہ “ایک بہت بڑی غلطی ہے!”

سمجھوتوں کی خلاف ورزیاں

ایرانی حکومت اپنے جوہری اور بیلسٹک میزائل کے پروگراموں کو محدود کرنے کے ماضی کے سمجھوتوں کی بار بار خلاف ورزیاں بھی کر رہی ہے۔ جولائی 2019 میں ایرانی حکومت نے 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت یورینیئم کی افزودگی کی 300 کلوگرام تک ذخیرہ کرنے کی حد کی خلاف ورزی کی اور ماضی کے وعدوں کو توڑتے ہوئے اپنی پُرامن ضروریات سے زیادہ یورینیئم کی افزودگی شروع کر دی۔

راکٹ کو فضا میں چھوڑا جا رہا ہے اور اردگرد ایرانی جھنڈے لگے ہوئے ہیں۔ (© Sepahnews/AP Images)
کسی نامعلوم مقام سے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے یہ ایران کے سمنان صوبے میں ہے، 22 اپریل کو سیٹلائٹ لے کر جانے والے راکٹ کو فضا میں چھوڑا جا رہا ہے۔ (© Sepahnews/AP Images)

آئی آر جی سی نے 22 اپریل کو ایک سیٹلائٹ خلا میں بھجوا کر ایک خفیہ عسکری خلائی پروگرام کو بے نقاب کیا جس سے اس کے میزائلوں کی تیاری کو فروغ حاصل ہو سکتا ہے۔ پومپیو نے کہا کہ اس میزائل کو بھیجنا اقوام متحدہ کی قرارداد 2231 کی خلاف ورزی ہے۔

پومپیو نے 23 اپریل کو کہا، “میرا خیال ہے کہ ہر ملک پر اقوام متحدہ میں جانے اور یہ جانچنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آیا اس میزائل کا چھوڑا جانا سلامتی کونسل کی قرارداد سے مطابقت رکھتا ہے۔ میرے خیال میں ایسا بالکل نہیں ہے۔”