
ایرانی حکومت کے خلیج فارس میں تیل کے ٹینکروں پر حملوں کی وجہ سے جہاز رانی کی لاگتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور انسانی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حملے ایرانی حکومت کے تشدد اور دھونس کا استعمال کرتے ہوئے بین الاقوامی کمیونٹی میں اثرو رسوخ حاصل کرنے کا عملی مظاہرہ بھی ہیں۔
وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنی ایک حالیہ ٹویٹ میں انقلاب اسلامی کی سپاہ، آئی آر جی سی کی آبنائے ہرمز کے قریب ایک برطانوی جہاز کو ہراساں کیے جانے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر سمندری سلامتی اور عالمی تجارت کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے کام کرے گا۔
The U.S. condemns the IRGC-Navy’s attempt to harass the UK vessel near the Strait of Hormuz. We commend the Royal Navy in ensuring freedom of navigation and will continue to work with our allies to ensure the Iranian regime does not disrupt maritime security and global commerce.
— Secretary Pompeo (@SecPompeo) July 12, 2019
ٹوئٹر کی عبارت کا خلاصہ:
امریکہ، آئی آر جی سی بحریہ کی جانب سے برطانوی بحری جہاز کو آبنائے ہرمز کے قریب ہراساں کیے جانے کی مذمت کرتا ہے۔ بحری جہاز رانی کو یقینی بنانے پر ہم [برطانیہ کی] شاہی نیوی کی تعریف کرتے ہیں۔ ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر یہ یقینی بنانے کے لیے کام کرنا جاری رکھیں گے کہ ایرانی حکومت سمندری سلامتی اور عالمی تجارت کے تحفظ میں گڑبڑ پیدا نہ کرے۔
ایران کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائن ہک نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ آبنائے ہرمز کے قریب کئی ایک ٹینکروں پر ایرانی حملے، ایرانی حکومت کے اپنی جارحیت کو جاری رکھنے کا ثبوت ہیں۔ اس جارحیت کی قیمت بین الاقوامی تجارت کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔

ہک نے 28 جون کو لندن میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں نامہ نگاروں کو بتایا، “ہمیں علم ہے کہ سمندری انشورنس کے ریٹ ایران کی طرف سے کیے جانے والے سمندری حملوں کی وجہ سے بڑھ گئے ہیں۔ ایران اپنی 40 سالہ تاریخ میں لوگوں میں دہشت گردی پھیلاتا چلا آ رہا ہے اور اکثر کامیاب ہوتا ہے۔ وہ اس وقت تک کشیدگی میں اضافہ کرتے رہتے ہیں جب تک اُن پر پڑنے والے دباؤ میں کمی نہیں آ جاتی۔”
24 جون کو”بلوم برگ” نے اطلاع دی کہ خطے میں ٹینکروں اور اُن پر لدے تیل کی شکل میں سامان کی انشورنس کی لاگت دس گنا اضافے کے بعد تقریباً پانچ لاکھ ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس سال کے اوائل میں ساڑھے سات کروڑ ڈالر کی قیمت کے جہاز کی انشورنس تیس ہزار ڈالر سے بڑھکر دو لاکھ ڈالر سے زائد ہو چکی ہے۔
امریکہ ایرانی حکومت پر اس کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو مستقلاً ختم کرنے اور دہشت گردی کی مالی مدد کو مکمل طور پر روکنے کی خاطر دباؤ ڈالنے کے لیے پابندیوں کو استعمال میں لا رہا ہے۔
11 جولائی کو برطانیہ کی شاہی بحریہ نے کہا کہ اس نے ایرانی توپ بردار کشتیوں کو خلیج میں تیل کے ایک ٹینکر کے سفر میں رخنہ ڈالنے سے روکا۔ ایران کی انقلاب اسلامی کی سپاہ نے اپنے ملوث ہونے کا انکار کیا ہے۔ (اپریل میں امریکہ نے آئی آر جی سی کو ایک غیرملکی دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کیا۔ )
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت اور اس کے آلہ کار 12 مئی کو تیل کے چار ٹینکروں اور 13 جون کو مزید دو ٹینکروں پر کیے جانے والے حملوں کے ذمہ دار ہیں۔ اگرچہ ایرانی حکومت اِن ٹینکروں پر کیے جانے والے حملوں کی ذمہ داری سے انکار کرتی ہے تاہم وہ اپنے ماضی میں کیے جانے والے وعدوں کے برعکس جوہری مواد کا ذخیرہ کرنے اور اسے افزودہ کرنے کو تسلیم کرتی ہے۔
دریں اثنا، بحری جہاز رانی کے اہل کار قیمتوں میں اضافوں کے بارے خبردار کر رہے ہیں۔
جہاز رانی کی صنعت کی ایک ایسوسی ایشن، “بالٹک اینڈ انٹرنیشنل میری ٹائم کونسل” (بی آئی ایم سی او) نے 21 جون کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ بحری جہازوں سے خلیج فارس سے چین 20 لاکھ بیرل تیل لے جانے کی مئی میں یومیہ لاگت 9,979 ڈالر تھی۔ حملوں کے بعد جون میں یہ یومیہ لاگت دو گنا سے زائد اضافے کے بعد بڑھکر 25,994 ڈالر ہو گئی۔
بی آئی ایم سی او کا کہنا ہے، “حملوں کی خبروں کے بعد سلامتی کے اضافی اقدامات اور انشورنس کے پریمیئم میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہازوں کے مالکان کو نہ صرف زیادہ خطرات کا سامنا ہے بلکہ انہیں اس خطے میں تجارت کرتے وقت زیادہ قیمت بھی ادا کرنا پڑ رہی ہے۔”