
ایرانی حکومت نے ملک کے اندر انٹرا نیٹ تعمیر کرنے پر 4.5 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں جس سے عام ایرانیوں کی انٹرنیٹ تک رسائی پر پابندیاں مزید سخت ہو جائیں گیں۔
حکومت لمبے عرصے سے ہزاروں ویب سائٹیں بند کرتی چلی آ رہی ہے۔ ریڈیو فردا کے مطابق اب حکومت 2005ء میں شروع کیے جانے والے ‘نیشنل انفارمیشن نیٹ ورک’ (این آئی این) کہلانے والے ایک پراجیکٹ کے ذریعے مواد پر بہت زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ملک کے اندر انٹرا نیٹ ملک سے باہر جانے والی ڈیٹا کی درخواستوں کو روک دے گا اور حکومت مواد کو سنسر کر سکے گی۔
امریکی وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو ٹکنالوجی کی امریکی اور بین الاقوامی کمپنیوں کی ایرانی عوام تک آزاد معلومات کے بہاؤ کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے (ایرانی) حکومت کے نومبر 2019 میں اپنے مظالم چھپانے کی خاطر انٹرنیٹ کو بند کرنے کا ذکر کیا۔
پومپیو نے 20 مارچ کو ایک بیان میں کہا، “حکومتی زیادتیوں کے شواہد چھپانے کی کوشش میں ایران نے گزشتہ نومبر میں عالمی انٹرنیٹ تک رسائی کو تقریباً مکمل طور پر بند کر دیا اور اس کے نتیجے میں اپنی آٹھ کروڑ آبادی کو ایک ہفتے کے لیے ڈیجیٹل تاریکی میں دھکیل دیا۔ اس دوران سکیورٹی فورسز نے 1,500 افراد کو ہلاک کیا اور یکطرفہ طور پر ہزاروں کو حراست میں لیا۔”

پٹرول کی قیمتوں کے خلاف 15 نومبر 2019 میں شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے جلد ہی حکومتی بدانتظامی کو نشانہ بنانے والے احتجاجوں میں بدل گئے۔ دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی آزادی پر نظر رکھنے والے نیٹ بلاکس کے مطابق اس کے بعد کی جانے والی انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے ایرانی معیشت کو 300 ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔
موبائل آلات کے تمام نیٹ ورک بند کر دیئے گئے۔ نیٹ بلاکس نے انٹرنیٹ تک معمول کی رسائی کی شرح 5 فیصد ریکارڈ کی۔ تاہم شہری سرکاری انٹرا نیٹ تک رسائی حاصل کر سکتے تھے۔
صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ این آئی این کی تکمیل غیرملکی نیٹ ورکوں کی ضرورت کو ختم کر دے گی۔ ایرانی حکومت نے این آئی این کو 2016ء میں مکمل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا مگر وہ اس میں ناکام رہی۔ ایران کی حکومت شہریوں کو انٹرنیٹ کی بجائے این آئی این استعمال کرنے کی خاطر مالی مراعات کی پیش کش بھی کر رہی ہے۔
ریڈیو فردا کا کہنا ہے کہ بار بار کی بندشوں کے باوجود ایرانی عوام انٹر نیٹ پر حکومتی سنسرشپ کو جُل دے جاتے ہیں۔ اس کے لیے وہ گمنام براؤزر اور ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس یعنی وی پی این استعمال کرتے ہیں۔ نئے انٹرا نیٹ کے تحت وی پی اینز کو بند کر دیا جائے گا۔
امریکہ اپنی پالیسیوں کے ذریعے ایرانی عوام کے معلومات کے آزادانہ بہاؤ کے حق کی حمایت کرتا ہے۔ اس کی ایک مثال امریکی محکمہ خزانہ کا “جنرل لائسنس ڈی ون” ہے جو مواصلات کی ذاتی سہولتوں کے استعمال میں آسانیاں پیدا کرتا ہے۔
فریڈم ہاؤس نے ایرانی حکومت کی انٹرنیٹ کی مکمل بندش سے ایک ہفتہ قبل نومبر 2019 میں نیٹ کی آزادی کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی۔ اپنی رپورٹ میں فریڈم ہاؤس نے مشرق وسطی میں انٹرنیٹ کی آزادی کی درجہ بندی میں ایران کو آخر میں رکھا۔ اس رپورٹ میں 67 ممالک کا جائزہ لیا گیا۔ انٹرنیٹ میں ایران سے نیچے صرف چین تھا۔ اس درجہ بندی کی بنیاد رسائی، مواد کی حدود اور صارفین کے حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہے۔