ایک ایرانی قانون ساز جنوری میں حکومت کی جانب سے مسافر طیارہ گرائے جانے کی تعریف کر رہا ہے جو ایرانی حکام کی جانب سے اس المیے کے حوالے سے ہمہ وقت بدلتے بیانات کا تسلسل ہے جس میں 176 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ایک ایرانی خبررساں ادارے کا حوالہ دیتے ہوئے ریڈیو فردا نے بتایا کہ پارلیمان کے قانونی و عدالتی کمیشن کے ترجمان حسن نوروزی نے 5 اپریل کو کہا، ”ایرانی فوج نے مسافر بردار طیارہ گرا کر اچھا کیا۔” بظاہر اس سویلین جہاز پر حملے کا جواز پیش کرنے کی کوشش میں انہوں نے مزید کہا، “یہ جہاز ٹاور کے کنٹرول سے نکل کر لگتا ہے کہ امریکہ کے کنٹرول میں چلا گیا تھا۔”
نوروزی نے یہ بھی کہا کہ 8 جنوری کو ہونے والے اس حادثے کے سلسلے میں کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
اس قانون ساز کا بیان حکومت کے اُن اعلیٰ سطحی عہدیداروں کے بیانات کی نفی کرتا ہے جنہوں نے ابتدا میں طیارہ گرانے میں ملوث ہونے سے انکار کیا تاہم بعد میں اسے گرانے کا اعتراف کرتے ہوئے واقعے کے حوالے سے احتساب کا وعدہ کیا تھا۔
ایران کے لیے امریکہ کے نمائندے، برائن ہُک نے ایرانی حکومت کی جانب سے پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کی سپاہ کی یوکرین کا طیارہ گرائے جانے کی کارروائی چھپانے کے اقدام کو ان ایرانیوں کے لیے مایوسی کا باعث قرار دیا ہے جو حکومت سے تنگ آ چکے ہیں۔ اس طیارے پر سوار بیشتر مسافر کینیڈا یا ایران کے شہری تھے۔
ہُک نے 17 جنوری کو صحافیوں کو بتایا، ”عوام کو شدید غم وغصہ تھا کہ پاسداران انقلاب نے مسافر بردار جیٹ طیارے کے گرائے جانے کے واقعے سے متعلق تین دن تک ان سے جھوٹ بولا جس میں 176 افراد ہلاک ہوئے تھے۔” انہوں نے مزید کہا کہ اس واقعے پر ایران کے سرکاری میڈیا کے چار ملازمین نے نوکری چھوڑ دی جن میں وہ شخص بھی شامل تھا جس نے ناظرین سے سالہا سال تک جھوٹ بولتے رہنے پر معذرت کی۔

ایرانی حکومت نے ویڈیو کی شہادت سامنے آنے کے بعد ہی مسافر بردار طیارے پر حملے کا اعتراف کیا۔ اس ویڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ طیارے پر میزائل حملہ کیا گیا جبکہ کینیڈا اور برطانیہ کے حکام کا کہنا ہے کہ طیارے کی تباہی میں ایرانی حکومت کے ملوث ہونے کا ”قوی امکان” پایا جاتا ہے۔
ابتدائی انکار اور بعد ازاں اس بیان سے پھِر جانے پر ایک ایسی حکومت کے خلاف نئے مظاہرے شروع ہو گئے جو شہریوں کے احتجاج دبانے کے لیے فوری کارروائی کرتی ہے مگر بحرانی کیفیات میں غلط بیانی اور تاخیر سے ردعمل دیتی ہے۔
نوروزی کی باتیں بشمول جہاز کے ”امریکی کنٹرول میں جانے” سے متعلق بیان دھوکہ دہی کے اُس جانے پہچانے نمونے کا تسلسل ہے جس میں عام طور پر حکومت کی نااہلی کی بجائے خرابی کا الزام غیرملکی پروپیگنڈے پر لگایا جاتا ہے۔
ایران میں شہری حادثات سے متعلق تفتیشی کمیشن کے سربراہ نے ابتدا میں جہاز پر میزائل حملے کا امکان رد کیا اور ایرانی مسلح افواج کے ایک ترجمان نے اسے ”نفسیاتی جنگ” قرار دیتے ہوئے ان الزامات کو مسترد کیا کہ ایران کی حکومت اس واقعے کی ذمہ دار ہے۔
ایران کے رہنماؤں نے ملک میں کوووِڈ۔19 سے ہونے والی ہلاکتوں کو بھی کم بتایا۔ رہبر اعلٰی علی خامنہ ای نے وائرس سے لاحق خدشات کو حکومت کے دشمنوں کا ”منفی پروپیگنڈہ” قرار دیتے ہوئے مسترد کیا۔ مارچ میں انہوں نے کہا کہ ملک میں کوووِڈ۔19 وباء کا پھوٹنا حیاتیاتی حملہ بھی ہو سکتا ہے۔
تاہم ایرانی حکومت نے نومبر 2019 میں معاشی بدانتظامی کے خلاف مظاہرے کچلنے کے لیے تیزی سے کارروائی کی۔ رائٹرز کے مطابق اس کارروائی میں 1500 سے زیادہ مظاہرین ہلاک ہوئے۔