ایران میں محنت کشوں کو روز بروز اس بات پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ یا تو خاموشی سے بغیر کسی اجرت کے مشقت کرتے رہیں یا اپنی واجب الادا تنخواہوں کا مطالبہ کر کے کوڑے کھانے کا خطرہ مول لیں۔

حال ہی میں ایک ایرانی جج نے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف احتجاج کرنے والے 16 محنت کشوں کو 30 کوڑوں اور آٹھ ماہ جیل کی سزائیں دیں۔ حکومت کا یہ اقدام اُن محنت کشوں کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں کا ایک حصہ ہے جو اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اگست میں سنائی جانے والی سزائیں جنوب مغربی ایران کے صوبے خوازستان میں واقع ہفت تپہ کے صنعتی کمپلیکس میں چینی کی ایک فیکٹری میں اس سال موسم بہار میں اُن محنت کشوں کی جانب سے کیے جانے والے مظاہروں کا نتیجہ ہیں جو گزرے ہوئے دو ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کا مطالبہ کر رہے تھے۔

اسلامی جمہوریہ ایران میں انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کی 18 جولائی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، ” ایرانی حکام کی جانب سے گزشتہ سال کے دوران محنت کشوں کے حقوق کا مطالبہ کرنے والے ٹریڈ یونینوں کے اراکین اور دوسرے محنت کشوں کے خلاف دباوً میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔”

ٹوئٹر کی عبارت کا خلاصہ:

ایران کی انسانی حقوق کی تنظیم

سرکاری میڈیا کی رپورٹ کے مطابق جنوب مغربی ایران میں ہفت تپہ کی چینی کی فیکٹری کے 16 محنت کشوں کو آٹھ ماہ کی قید اور 30 کوڑوں کی معطل شدہ سزائیں سنائیں  گئیں۔ اُن پر غیر ادا شدہ تنخواہوں کی ادائیگی پر کیے جانے والے مظاہروں میں اُن کی مبینہ شرکت کی بنا پر مقدمہ چلایا گیا تھا۔

رپورٹوں کے مطابق ٹرک ڈرائیوروں، اساتذہ اور کارخانے کے مزدوروں کو دھمکایا اور گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اُن پر “ریاست کے خلاف پراپیگنڈہ پھیلانے” سے لے کر “غیرقانونی اجتماعات میں شرکت کے ذریعے امن عامہ میں خلل ڈالنے” تک کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں جن کے نتیجے میں انہیں جیل میں قید اور کوڑوں کی سزائیں دی جاتی ہیں۔

خاتون صحافی مرزی امیری کو مزدوروں کی ایک ریلی کے بارے میں محض خبریں دینے کی وجہ سے 10 برس قید اور 148 کوڑوں کی سزائیں سنائیں گئیں۔ انہیں اپنی سزا کے چھ  برس پورے کرنا ہوں گے۔

اقوام متحدہ کوڑوں کو تشدد کے مترادف قرار دے چکی ہے۔

2018ء کی اس مثال پر ذرا غور کریں: مزدوروں کی یونین کے ایک ایرانی فعال کارکن کو بہتر اجرتوں کا مطالبہ کرنے والے بس ڈرائیوروں میں بسکٹ تقسیم کرنے کی وجہ سے پانچ سال جیل کی سزا دی گئی۔

مزدوروں کے پرامن مظاہروں پر حکومت کی طرف سے دی جانے والی سزا، عوامی اجتماعات اور مارچوں کی اجازت دینے والے ایرانی آئین کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ انسانی حقوق کے گروہوں کا کہنا ہے کہ اِن ظاہری تحفظات کے باوجود محنت کشوں کے حامیوں کو جیلوں میں ڈالنے کا عمل جاری و ساری ہے۔

ایران میں انسانی حقوق کے مرکز کے مطابق 3 اگست کو تہران میں انقلابی عدالت کے باہر حکومت نے مزدوروں کے کئی ایک حامیوں کو گرفتار کر لیا۔ یہ حامی محنت کشوں کے اُن حمایتیوں کے مقدمے کی کاروائی دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے جو چینی کی فیکٹری کے مزدوروں کے احتجاجوں میں شامل ہوئے تھے۔

ایرانی حکومت باقاعدگی سے انسانی حقوق کے وکلاء اور صحافیوں کو نشانہ بناتی رہتی ہے۔ اپریل میں سرحدوں سے ماورا صحافیوں کی تنظیم نے دنیا میں پریس کی آزادی کے اشاریے میں 180 ممالک میں ایران کو 170ویں درجے پر رکھا۔ تنظیم نے اس کی وجہ حکومت مخالف مظاہروں کی خبریں دینے والے صحافیوں کی دین بدن بڑھتی ہوئی گرفتاریاں بتائی۔