چالیس سال قبل ایران کا شمار مشرق وسطٰی کے جدید ترین اور خوشحال ترین ممالک میں ہوتا تھا۔ مگر انقلابی حکومت کی بدانتظامی اور بدعنوانی کی وجہ سے ایران نے باقی دنیا کے ساتھ رفتار برقرار رکھنے کا موقع گنوا دیا۔
1978ء میں ایرانی آبادی کا حجم ترکی اور جنوبی کوریا کے برابر تھا۔

اسی طرح مصنوعات سازی اور خدمات کی مجموعی سالانہ مالیت بھی جسے جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کہا جاتا، ہے برابر تھی۔
عالمی بنک کے اعداد و شمار کے مطابق ان تینوں ممالک کی آبادی میں ڈرامائی انداز سے اضافہ ہوا ہے۔ آج جنوبی کوریا کی جی ڈی پی ایران سے تین گنا بڑی ہے جبکہ ترکی کی جی ڈی پی ایران کی جی ڈی پی سے لگ بھگ دوگنا بڑی ہے۔ ایسا اس کے باوجود ہے کہ ایران میں پائے جانے والے قدرتی وسائل کا شمار دنیا کے وسیع ترین وسائل میں ہوتا ہے جن میں تیل قابلِ ذکر ہے۔

وزیر خارجہ مائیک پومپو کہتے ہیں، “اس حکومت کے نظریاتی ایجنڈے کو ایرانی عوام کی فلاح و بہبود پر ترجیح دینے کے فیصلے نے ایران کو ایک طویل مدتی اقتصادی گرداب میں پھنسا دیا ہے۔”
انہوں نے کہا، ” امریکہ کو امید ہے کہ ایرانی عوام کے لیے ایرانی تاریخ کے آئندہ 40 سال جبر اور خوف کے نہیں بلکہ آزادی اور تکمیل کے ہوں گے۔”