
ٹینیسی یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر سعید گولکر کہتے ہیں، “اگر کوئی آمر کسی جنگ سے اپنی کوئی ایک خواہش پوری کرنے کا کہے تو وہ ایک ایسی تنظیم کا کہے گا جو تمام خطرات کا قلع قمع کردے اور جس پر زیادہ خرجہ بھی نہ ہو۔ بسیج اسی طرح کی ایک تنظیم ہے۔”
بسیج مزاحمتی فورس کیا ہے؟
اندرونی اختلاف رائے اور غیرملکی خطرات سے نمٹنے کے لیے بسیج کے 50 لاکھ سے زائد ارکان، جنہیں بسیجی کہا جاتا ہے حکومت کے اسلامی نظریے کا دفاع کرنے کے لیے تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ اِن ارکان کا تعلق ایرانی سکولوں، کاروباروں، کارخانوں اور بستیوں غرضیکہ ایران کی روزمرہ زندگی کے ہر شعبے سے ہے۔

اس کے عوض حکومت انہیں علاج معالجے یا رہائش، ملازمتوں کے مواقع اور یونیورسٹیوں میں داخلے جیسی مراعات سے نوازتی ہے۔
گولکر ایران کی بسیج فورس کو “فوجی خطوط پر منظم کی گئی ایک [ایسی] بہت بڑی انتظامی تنظیم” قرار دیتے ہیں جس میں “طلبا سے لے کر ڈاکٹروں تک کوئی بھی شامل ہو سکتا ہے۔” اس کی جڑیں “ایرانی معاشرے کے ہر شعبے میں گڑی ہوئی ہیں۔”
گولکر بتاتے ہیں کہ اس کے ارکان مقامی لوگوں کو رضاکارانہ طور پر حکومتی طور طریقوں اور اقدار کی نظریاتی تعلیم دیتے ہیں۔ اخلاقی پولیس کی حیثیت سے بسیجی گلی کوچوں میں گھوم پھر کر عورتوں کے لباس کے بارے میں سخت قانون کو نافذ کرتے ہیں۔
حکومت کے اندورنِ ملک گندے کام کرنے کے لیے نیم فوجی فورس کے ارکان کی حیثیت سے بسیجیوں کو کثرت سے طلب کیا جاتا ہے۔ انہوں نے 2009 اور پھر 2018 میں مقبول عوامی شورشوں میں شرکت کرنے والے مظاہرین پر حملے کیے۔
اس نمونے کی بیرون ملک برآمد
بسیج بارہ سال کی چھوٹی عمر میں سکول کے بچوں کو بھرتی کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اُنہیں پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کی سپاہ کی القدس فورس کے جنگجووًں کی حیثیت سے پروان چڑہایا جاتا ہے۔ پھر انہیں شام میں تعینات کر دیا جاتا ہے۔ گولکر نے بتایا کہ 2012ء میں ایران کی پاسدارانِ انقلاب کی سپاہ نے شام میں چودہ ہزار سے زیادہ بسیجی طرز کے لیڈروں کی ایک فوج کھڑی کی۔ 2014ء میں اس کی تعداد ایک لاکھ تک جا پہنچی اور آج یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں ایک ماہر پالیسی ساز احمد مجید یار کے مطابق ایران کی پاسدارانِ انقلاب کی سپاہ نے “افغانی، پاکستانی، عراقی اور لبنانی شیعوں کو دنیائے عرب میں ایرانی مفادات کی خاطر لڑنے کی خاطر متحرک کرنے کے لیے بسیج کی کامیابی کی تقلید کی ہے۔”
مجید یار لکھتے ہیں کہ پاسدارانِ انقلاب کی سپاہ نے لاطینی امریکہ کے کئی ایک ممالک میں بھی اسی طرح کی فورس بنانے کے لیے تربیتی سہولتیں فراہم کی ہیں۔
یہ مضمون ایک بار پہلے 18 اکتوبر 2018 کو شائع ہو چکا ہے۔