ایران میں میسیجنگ کے ایپس کون استعمال کر سکتا ہے؟

دو عورتیں موبائل فون پر دیکھ رہی ہیں (© Vahid Salemi/AP Images)
تہران کے ایک مال کے باہر 2019ء میں، ایک ایرانی عورت اپنے موبائل فون پر دیکھ رہی ہے۔ (© Vahid Salemi/AP Images)

ایرانی قانون سازوں نے بیرونی ممالک کی مالکیت تمام سوشل میسیجنگ ایپس پر پابندی لگانے اور اِن کو حکومتی نگرانی میں چلنے والے مقامی ایپس سے لانے کی تجویز دی ہے۔

ریڈیو فردا نے اطلاع دی ہے کہ درجنوں قانون سازوں نے 24 اگست کی اُس تجویز پر دستخط کیے جس کا مقصد سماجی نیٹ ورکنگ کی سائٹوں کو لائسنس جاری کرنے اور اُن کی نگرانی کرنے اور قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر دو سال تک قید کی سزا دینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینا ہے۔

تاہم ایک طرف تو ایرانی حکومت عام ایرانیوں کی انٹرنیٹ تک رسائی کو مزید محدود کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے تو دوسری طرف حکومت کے اعلٰی حکام  پراپیگنڈہ پھیلانے کے لیے امریکہ میں قائم سوشل میڈیا کی ٹکنالوجیوں کو ابھی تک آزادانہ طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

ٹوئٹر پر ایران کے رہبر اعلٰی، علی خامنہ ای کے غیرملکی زبانوں میں کئی ایک اکاؤنٹ ہیں۔ انہوں نے یکم ستمبر کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان امن کے معاہدے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کئی ایک ٹویٹس پوسٹ کیں جن میں انہوں نے اس معاہدے کو ایک ایسی “دغا بازی” قرار دیا جو “زیادہ عرصہ نہیں چلے گی۔” اِس کے بعد، بحرین بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے یو اے ای کے ساتھ شامل ہو چکا ہے۔

ایرانی صدر حسن روحانی اور وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے بھی ٹوئٹر پر اکاؤنٹ چل رہے ہیں۔ اس کے برعکس یہ حکومت فیس بک اور یو ٹیوب کے ساتھ ساتھ  ٹوئٹر تک عام ایرانیوں کی رسائی کو روکے ہوئے ہے۔

انٹرنیٹ کی رسائی کو مزید محدود کرنے کے مجوزہ اقدامات، نومبر میں ہونے والے ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے خلاف کی جانے والی پرتشدد کاروائیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے حکومت کے انٹرنیٹ کو مکمل طور پر بند کرنے کے بعد اٹھائے جا رہے ہیں۔ اِن کاروائیوں میں حکومت کی فورسز نے تقریباً 1,500 افراد کو ہلاک کیا۔ عوامی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے مظاہروں کے بعد احتجاج کرنے والوں پر تشدد کیا۔

 حسن روحانی اور دیگر افراد ایک بڑے مانیٹر اور لیپ ٹاپ پر دیکھ رہے ہیں (© Presidency of Iran/Anadolu Agency/Getty Images)
ایرانی صدر حسن روحانی (دائیں سے دوسرے)، اطلاعات اور کمیونیکیشن ٹکنالوجی کے وزیر، محمد جواد آذری جھرمی (بائیں سے دوسرے)، 2019ء میں وزارت اطلاعات میں ہونے والی ایک نمائش میں۔ (© Presidency of Iran/Anadolu Agency/Getty Images)

انٹرنیٹ کے کنکشنوں گڑبر پھیلانے یا رسائی کو محدود کرنے کے لیے ایرانی حکومت کے سکیورٹی اور انٹیلی جنس ادارے فلٹروں کا استعمال کرتے ہیں۔ ریڈیو فردا کے مطابق ملک کے مقبول ترین ایپ، ٹیلی گرام کو اکثر سنسر کیا جاتا ہے۔

2005ء سے لے کر آج تک، ایران کے لیڈر ملک کے اندر ایک ایسا انٹرانیٹ بنانے پر کم از کم 4.5 ارب ڈالر خرچ  کر چکے ہیں جو ملک سے باہر جانے والے ڈیٹا کی گزارشات کو روک دے گا اور حکومت کو مواد کو سنسر کرنے کی اجازت بھی دے گا۔ حکومتی عہدیداروں نے حال ہی میں چین کے ساتھ ملکی انٹرانیٹ بنانے کے ایک سمجھوتے کا اعلان کیا ہے۔

“سوشل میڈیا میسیجنگ کو منظم کرنے” کے نام سے ایرانی پارلیمنٹ میں موجود اس تجویز کے تحت میسیجنگ ایپ کے لیے لائسنس دینے اور اِن کی نگرانی کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جائے گی۔ کمیٹی میں شامل حکومتی اداروں میں پاسداران انقلاب اسلامی کی سپاہ کا ایک نمائندہ بھی شامل ہوگا۔ امریکہ کی طرف سے دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کی گئی سپاہ، براہ راست خامنہ ای کو جوابدہ ہوتی ہے۔

اس منصوبے کے تحت یہ لازمی ہوگا کہ ملکی ایپ کی کم از کم 50 فیصد مالکیت کسی ایرانی شہری کے پاس ہو، یہ ایران سے ہوسٹ (موجود) ہو اور یہ ملکی قوانین کا پابند ہو۔ افراد یا کمپنیاں جو اس قانون سے باہر میسیجنگ ایپ بنائیں گیں یا نجی ورچوئل نیٹ ورک تقسیم کریں گیں وہ قانون کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوں گیں۔

امریکی حکومت اپنی پالیسیوں کے ذریعے ایرانی عوام کے معلومات کے آزادانہ بہاؤ کے حق کی حمایت کرتی ہے۔ اس کی ایک مثال امریکی محکمہ خزانہ کا عمومی لائسنس ڈی ون ہے جو ایران میں ذاتی مواصلات کی خدمات کے استعمال میں آسانیاں پیدا کرتا ہے۔