
امریکی حکومت کے ایک اہلکار نے کہا کہ گذشتہ نومبر میں ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے دوران پرامن احتجاجی مظاہرین کے خلاف مہلک قوت کے استعمال کی اجازت دینے کا ذمہ دار ایرانی حکومت کا ایک اعلٰی عہدیدار تھا جس کے نتیجے میں بچوں سمیت بہت سے شہری ہلاک ہوئے۔
20 مئی کو وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے ایرانی حکومت کے وزیر داخلہ، عبدالرضا رحمانی فاضلی کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا۔ امریکی حکام کو یقین ہے کہ وزیر داخلہ فاضلی نے پولیس کو پرامن احتجاجی مظاہرین اور راہگیروں پر حملہ کرنے کی “کھلی چھٹی” دی۔
پومپیو نے اپنے 20 مئی کے بیان میں کہا، “اُس کا — اور ایرانی حکومت کا — مقصد ہر قیمت پر پُرامن احتجاجی مظاہرین کو کچلنا اور پُرامن اکٹھ اور اظہار آزادی کے حقوق کو دبانا تھا۔ اُس کے احکامات کے نتیجے میں کم از کم 23 کم سن بچوں سمیت بہت سے مظاہرین مارے گئے۔”
Today the U.S. sanctioned Iran’s Minister of Interior, Rahmani Fazli, and others under human rights-related sanctions authorities. Under Fazli’s orders, many peaceful protesters have been killed, among them a 12-year-old walking home from school. The abuse must stop.
— Secretary Pompeo (@SecPompeo) May 20, 2020
نومبر میں ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے خلاف ایرانی حکومت کی وحشیانہ کاروائیوں کے نتیجے میں جنوب مغربی ایران کے شہر ماھاشہر میں 148 سے زیادہ ایرانیوں کے قتل عام سمیت 1,500 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ابتدا میں یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد شروع ہوئے مگر جلد ہی اِن احتجاجوں کا رخ حکومت کی وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی بدعنوانی اور بدانتظامی کی طرف مڑ گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 4 مارچ کو “انہوں نے ہمارے بچوں کو گولیاں ماریں” کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں 12 سالہ سید علی موسوی بھی شامل تھا جسے ایرانی سیکیورٹی فورسز نے مغربی ایران کے شہر رامہورموز میں سینے میں گولی ماری۔ موسوی کو 16 نومبر کو اُس وقت گولی ماری گئی جب وہ سکول سے واپسی گھر جاتے ہوئے مظاہرین کے قریب سے گزر رہا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں اس بات کا ثبوت بھی فراہم کیا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے 23 کم سن بچوں کو ہلاک کیا اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ (ایرانی) حکومت کے طاقت کے غیر قانونی استعمال کی تحقیقات کرے۔
امریکی پابندیوں کا ہدف اندرون ملک سکیورٹی کی نگرانی کرنے والے رحمانی فاضلی اور (ایرانی) حکومت کے قانون کا نفاذ کرنے والی فورسز کے سات اعلی اہلکار ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ کی جانب سے پہلے ہی دہشت گروپ نامزد کیے جانے والی پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کی سپاہ کے ایک صوبائی کمانڈر کو بھی ان پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
امریکہ کے خارجہ اور خزانے کے محکموں کی طرف سے لگائی جانے والی اِن پابندیوں کے تحت مالی جرمانے عائد کرنے کے ساتھ ساتھ رحمانی فاضلی اور اُن کے اہلخانہ کے امریکہ آنے پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔ امریکہ اقتصادی پابندیوں کو ایران کو دہشت گردی کی مالی مدد کرنے سے روکنے اور اپنے وسائل ملک پر خرچ کرنے پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

ایران کی قانون نافذ کرنے والی فورسز نے رحمانی فاضلی کی 2013ء میں شروع ہونے والی قیادت میں انسانی حقوق کی لاتعداد خلاف ورزیاں کی ہیں۔ محکمہ خزانہ نے 20 مئی کو ایک بیان میں کہا کہ احتجاجی مظاہرین کے خلاف حکومتی کاروائیوں کے علاوہ قانون نافذ کرنے والی فورسز جسمانی اور نفسیاتی زیادتیوں سے جڑے حراستی مراکز بھی چلاتی ہیں۔
محکمہ خزانہ کے بیان کے مطابق وزیر داخلہ کی حیثیت سے رحمانی فاضلی نے پرامن اجتماعات کے لیے اجازت نامے جاری کیے اور اس کے بعد سادہ کپڑوں میں ملبوس ایسے افراد نے اِن اجتماعات پر حملے کیے جن کے بارے میں سکیورٹی اہلکار ہونے کا شبہ ہے۔
امریکی وزیر خزانہ سٹیون ٹی منوچن نے ایک بیان میں کہا، “جسمانی اور نفسیاتی زیادتیوں کے ذریعے پرامن احتجاجوں سمیت، ایرانی حکومت اختلاف رائے کو تشدد کے ذریعے دباتی ہے۔ امریکہ اُن ایرانی اہلکاروں اور اداروں کو جوابدہ ٹھہرانا جاری رکھے گا جو اپنے ہی لوگوں پر ظلم و جبر روا رکھتے ہیں اور اُن کے ساتھ زیادتیاں کرتے ہیں۔”