نسرین ستودہ ایران کی ایک مشہور وکیل ہیں۔ انہیں مارچ میں “عوام میں سر پر دوپٹہ اوڑھے بغیر آنے پر” 74 کوڑوں کی سزا دی گئی۔ اس کے علاوہ اُنہیں “لوگوں کے ذہنوں کو منتشر کرنے کے لیے معلومات شائع کرنے پر” مزید 74 کوڑوں کی سزا دی گئی۔
اس سزا کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں محمکہ خارجہ کے نائب ترجمان رابرٹ پالاڈینو نے کہا، ” یہ مخصوص سزا حقیقی معنوں میں بربریت ہے۔” کوڑوں کی سزا 33 سالہ قید کی اُس سزا کے علاوہ ہے جو نسرین ستودہ کو ایسی عورتوں کا پرامن دفاع کرنے پر دی گئی ہے جن پر الزام ہے کہ وہ عوام میں اپنے سروں پر دوپٹے لیے بغیر آئیں۔
ستودہ کا شمار اُن سیکڑوں ایرانیوں میں ہوتا ہے جنہیں حالیہ ماہ میں کوڑوں کی سزائیں دی گئی ہیں۔
ایران کے ضابطہ فوجداری کے تحت 100 سے زائد “جرائم” کی پاداش میں کوڑوں کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ ان میں چوری، دست درازی، ہلڑبازی، مذہبی توہین، اور غیر شادی شدہ مردوں اور عورتوں کا سرعام ہاتھ تھامنے یا بوسہ لینے جیسی اخلاقی قوانین کی خلاف ورزیاں شامل ہیں جنہیں بالعموم بہت سے ممالک میں مجرمانہ نہیں سمجھا جاتا۔
صوفی گونا بادی سلسلے سے تعلق رکھنے والی الہام احمدی قرچک جیل میں قید ہیں۔ انہیں جنوری میں 148 کوڑوں کی سزا اس لیے دی گئی کیونکہ انہوں نے جیل میں قیدیوں کے لیے طبی سہولتوں کے فقدان اور جیل کے اندر ناقص حالات کے بارے میں عوامی سطح پر آواز اٹھائی۔ ایران کا ضابطہ فوجداری “جھوٹ شائع کرنے” اور “حکومتی اہلکاروں کی سرکاری فرائض کی ادائیگی کے دوران بے عزتی کرنے والوں کے لیے” 74 کوڑوں کی سزا کا تقاضہ کرتا ہے۔
بدکاری جیسے جرائم پر کوڑے مارنے کی سزا کو “نرم” گردانا جاتا ہے۔ بدکاری کی سزا پتھر مار مار کر ہلاک کرنا بھی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح چوری کی سزا کے طور پر ہاتھ بھی کاٹے جا سکتے ہیں۔
کوڑے مارنے کی سزائیں سرعام دی جاتی ہیں کیونکہ ایرانی حکام اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس سے شہریوں میں مزید “غیر اخلاقی” رویے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
مفروضہ جرائم کے کئی سال گزر جانے کے بعد بھی ایرانیوں کو کوڑوں کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ ایران کے ضابطہ فوجداری کے مطابق ایک نوعمر لڑکے کو شادی کے ایک کھانے کے دوران شراب پینے پر پکڑے جانے کے دس سال بعد سرعام 80 کوڑے مارنے کی سزا دی گئی۔
اقوام متحدہ کوڑوں کی سزا کو ایک ایسی ظالمانہ اور غیر انسانی سزا قرار دے چکی ہے جو تشددد کے مترادف ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی 2018 کی رپورٹ میں ایران کے ضابطہ فوجداری میں اس بربریت کو ادارہ جاتی شکل دینے پر سرزنش کی ہے۔ ایسا کرنے سے جسمانی اعضاء کاٹنے اور اندھا کرنے جیسی سزاؤں کو قانونی حیثیت بھی حاصل ہو جاتی ہے۔