عالمی لیڈروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا کے نام ایک کھلے خط میں ایران میں سیاسی یرغمالیوں کے طور پر قید کیے گئے چھ افراد کے خاندانوں نے اپنے پیاروں کی رہائی میں مدد کے لیے تمام حکومتوں سے مدد کی درخواست کی ہے۔

مظاہرین نے پوسٹر اور اشتہار اٹھا رکھے ہیں۔ (© Virginie Salmen/AFP/Getty Images)
2012 میں کیوبک، کینیڈا میں 35 سالہ سوفٹ ویئر انجینیر، سعید ملک پور کے حق میں لوگ مظاہرہ کر رہے ہیں۔ سعید ملک پور ایرانی نژاد کینیڈین شہری ہیں جنہیں 2008 سے ایران میں یرغمالی بنا کر قید میں رکھا ہوا ہے۔ (© Virginie Salmen/AFP/Getty Images)

3 دسمبر کے خط میں ایران میں یرغمال بنائے گئے دہری شہریت اور غیرملکی شہریت کے حامل شہریوں کے خاندانوں نے کہا ہے، “ہمارا تعلق مختلف ممالک سے ہے۔ ہمارے پسہائے منظر اور نقطہائے نظر مختلف ہیں۔ مگر ہم آج بیک آواز آپ کے پاس آنے کے لیے یکجا ہوئے ہیں۔”

 "اغوا شدہ" لفظ والے پوسٹر پر رابرٹ اے لیونسن کی تین تصاویر۔ (© Manuel Balce Ceneta/AP Images)
2012 میں ایف بی آئی کے اس پوسٹر میں رابرٹ لیونسن کو دکھایا گیا ہے:(بائیں طرف سے) یرغمال بنائے جانے سے قبل، اغوا کاروں کی طرف سے جاری کی جانے والی وڈیو سے حاصل کی گئی ایک تصویر اور پانچ سال قید میں رہنے کے بعد کی تصویر۔ (© Manuel Balce Ceneta/AP Images)

ان خاندانوں نے آپس میں ایک دوسرے سے اور اقوام متحدہ کے اہل کاروں کے ساتھ ملاقاتیں کیں جن کے دوران انہوں نے جاسوسی کے جھوٹے الزامات، تشدد اور قید کے دوران اذیت ناک جسمانی اور نفسیاتی زیادتیوں کے نتیجے میں زبردستی حاصل کیے گئے اقبال جرم کے بیانات سمیت اپنے پیاروں کی حیرت انگیز مماثلتوں کے بارے میں بتایا۔

اِن خاندانوں نے اپنے خط میں لکھا ہے، “ہر کہاںی نہ صرف من مانی حراست ہے بلکہ ایرانی حکام کی طرف سے سودے بازی کے طور پر انہیں استعمال کرنے کی سوچی سمجھی اور چالبازی کی حرکتیں ہیں۔”

یرغمال بنانا دہائیوں سے ایرانی حکومت کا ایک مستقل اور گھناؤنا کاروبار چلا  آ رہا ہے۔ ایران میں کام کرنے،  پڑھنے یا اپنے خاندانوں سے ملنے کے لیے آنے والے غیر ملکی شہری تواتر سے حکومت کا نشانہ بنتے چلے آ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے  کہ ایرانی حکومت انہیں ایسے مواقع کے طور پر دیکھتی ہے جن کے ذریعے ان سے  پیسے نکلوائے جا سکتے ہیں یا دوسری حکومتوں کی پالیسیوں میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

اپنے خط میں یہ خاندان لکھتے ہیں کہ 2007 میں ایران میں امریکی شہری باب لیونسن کو اغوا کیے جانے کے بعد سے اب تک ایرانی حکام ایک مغربی طاقت سے تعلق رکھنے والے 50 سے زائد افراد کو اغوا کر چکی ہے اور ان میں سے 20 افراد ابھی تک ایران نے یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ میں امریکی سفیر، نکی ہیلی مائکروفون پر اور پس منظر میں جھنڈے دکھائی دے رہے ہیں۔ (© Mary Altaffer/AP Images)
اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی۔ (© Mary Altaffer/AP Images)

خط کے اختتام میں کہا گیا ہے، “ایرانی حکومت کو یہ بتانے کے لیے برائے مہربانی واضح اور فوری طور پر ہمارے ساتھ شامل ہوں کہ یہ طرزعمل مزید برداشت نہیں کیا جائے گا اور اسے ہر حال میں ختم ہونا چاہیے۔” اس پر رابرٹ لیونسن، نزار ذکا، سعید ملک پور، کامران غدیری، احمد رضا جلالی اور باقر اور سیامک نمازی کے اہالیان خانہ کے علاوہ بہت سے ایسے لوگوں نے دستخط کیے ہیں جواپنے پیاروں کی سلامتی کے خوف کی وجہ خاموش رہنے پر مجبور ہیں۔

اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے ایران کی یرغمال بنانے کی روش کو “بین الاقوامی اصولوں کی ایک اور خلاف ورزی” قرار دیا ہے۔

اِن خاندانوں کے خط کو جاری کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “ایران نے ان افراد کو جیل میں بھیجنے اور وہاں مسلسل قید رکھنے کے لیے حیلے بہانے تراش رکھے ہیں جب کہ ان کی رہائی اور ان کی کسی منصفانہ عدالتی عمل کی پیروی کرنے کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔” ہیلی نے کہا کہ یرغمالیوں کو “فوری طور پر رہا کیے جانا چاہیے اور ان کے خاندانوں کے پاس بھجوانا چاہیے۔ ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک وہ یہاں آ نہیں جاتے۔”