2019ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ایرانی حکام نے گزشتہ چار دہائیوں میں تہران کے علاقے میں اپنے ہی ملک کے 17 لاکھ افراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کیا اور اِن میں سے بہت سوں کو پھانسی لگا دی۔
“رپورٹرز ودآوًٹ بارڈرز” [سرحدوں سے ماورا صحافیوں] کے مطابق اِن میں جو لوگ شامل ہیں اُن مبیں 5,700 سے زائد بہائی مذہبی اقلیت کے افراد اور کم از کم 860 پیشہ ور صحافی اور شہری صحافی ہیں۔ پیرس میں قائم اس غیرسرکاری تنظیم نے “جھوٹ کے چالیس سال” کے عنوان سے اپنی ایک رپورٹ 7 فروری 2019 کو شائع کی۔
اس رپورٹ میں دی گئی معلومات کی بنیاد افشا کی گئی ایک ایسی ایرانی فائل پر مبنی ہیں جن میں 40 سال پرپھیلی عدالتی کاروائیوں کی تفصیل درج ہے۔ اسلامی بنیاد پرستوں نے 11 فروری 1979 کو ایرانی حکومت کا تختہ الٹا۔
رپورٹرز ودآ ؤٹ بارڈرز نے اپنے ایک اعلامیے میں کہا کہ ان معلومات سے “حکومت کی جانب سے بولے جانے والے اُن جھوٹوں کی قلعی کھل جاتی ہے جو اس نے ایران کے عدالتی ظلم و ستم کے بارے میں گھڑ رکھے ہیں۔“
گرفتار کیے جانے والے بہت سے افراد میں مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے لوگ، ضمیر کے قیدی، حکومت کے مخالفین یا سرگرم کارکن شامل ہیں۔
اس رپورٹ کی چونکا دینے والی معلومات میں جو چیزیں شامل ہیں اِن کے مطابق 1980 کی دہائی سے لے کر اب تک کمسِن افراد سمیت 61,940 سیاسی قیدیوں کو گرفتار کیا گیا۔ اس رپورٹ میں اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ 1988ء میں رہبر اعلٰی روح اللہ خمینی کے احکامات کے تحت 4,000 افراد کو موت کی سزائیں دی گئیں۔ رپورٹ میں درج ان تعدادوں میں وہ 7,000 ایرانی شامل نہیں ہیں جنہیں حکومت نے نومبر 2019 میں ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے دوران جیلوں میں ڈالا گیا۔
حکومت نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے شروع ہونے والے مظاہروں کے جواب میں اپنے ردعمل پر پردہ ڈالنے کے لیے 16 نومبر 2019 کو انٹرنیٹ بند کر دیا۔ یہ مظاہرے حکومت کے دہائیوں پر پھیلے جبر اور معاشی بدانتظامی کے خلاف وسیع پیمانے پر عائد کیے جانے والے ایک فرد جرم کی شکل اختیار کر گئے۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے سیکرٹری جنرل کرسٹوفے ڈیلوائر کہتے ہیں، “اس رپورٹ کا وجود اور اس میں درج لاکھوں افراد سے متعلق معلومات نہ صرف ایرانی حکومت کے برسوں پر پھیلے اِس جھوٹ کی وسعت کو ظاہر کرتی ہیں کہ ایرانی جیلوں میں کوئی سیاسی قیدی یا صحافی نہیں ہے بلکہ اُن مسلسل سازشوں کو بھی آشکار کرتی ہیں جن کے تحت حکومت نے 40 سال میں مردوں اور عورتوں پراُن کی رائے یا رپورٹنگ کی وجہ سے ظلم ڈھائے۔“
ایک مختلف شکل میں یہ مضمون اس سے قبل 11 فرروری کو شائع کیا چکا ہے۔