امریکہ ایرانی حکومت پر عائد ہتھیاروں کی پابندی کو ختم نہیں ہونے دے گا اور اگر ضروری ہوا تو اقوام متحدہ کی ایک موجودہ قرار داد کے تحت حاصل اختیار کو استعمال کرتے ہوئے پابندیوں کو جاری رکھے گا۔
ایران کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی، برائن ہک نے 13 مئی کو وال سٹریٹ جنرل اخبار میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ اقوام متحدہ کی اکتوبر میں ختم ہونے والی ہتھیاروں کی پابندی ایرانی حکومت کو دہشت گرد گروپوں کو اسلحہ سے لیس کرنے کو محدود کرتی ہے اور اس میں توسیع ہونی چاہیے۔
ہک کہتے ہیں، “امریکہ اور شراکت کاروں نے ہتھیاروں کی پابندی سے ایران کے دہشت گردوں اور جنگجوؤں کو جدید ہتھیار بھیجنے کو روکا ہوا ہے۔ ہتھیاروں کی پابندی کو ختم ہونے دینے سے ایران کے لیے شام میں اپنے حلیفوں کو، غزہ میں حماس کو، اور عراق میں شیعہ ملیشیاؤں کو ہتھیار بھجوانا بہت زیادہ آسان ہو جائے گا۔”
ہک کہتے ہیں کہ امریکہ نے پابندی میں توسیع کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک قرار داد کا مسودہ تیار کیا ہے۔ تاہم اگر سلامتی کونسل کے کسی رکن نے اس توسیع کو ویٹو کیا تو 2015ء کے ناقص جوہری سمجھوتے کی توثیق کرنے والی قرارداد امریکہ کو ایران پر ہتھیاروں کی فروخت پر عائد پابندیوں کو “دوبارہ عائد کرنے” کی اجازت دیتی ہے۔
Special Representative for Iran Brian Hook: The Security Council must pass a resolution to extend the arms embargo. If this effort is defeated by a veto, the Trump administration is prepared to exercise all legally available options to extend the embargo. https://t.co/KXG7NH1fOi
— Morgan Ortagus (@statedeptspox) May 14, 2020
18 اکتوبر کو 2015 کے جوہری معاہدے کے پانچ سال مکمل ہونے کے بعد، دنیا کی دہشت گردی کی سرکردہ سرپرستی کرنے والی ریاست پر عائد اہم پابندیاں ختم ہونا شروع ہو جائیں گیں۔ پابندیاں ہٹنے سے ایرانی حکومت کو جنگی طیاروں، جنگی بحری جہازوں، آبدوزوں اور گائیڈڈ میزائلوں سمیت جدید ہتھیاروں کی برآمد و درآمد کی اجازت حاصل ہو جائے گی۔
2015 کے جوہری معاہدے کے تحت ایرانی حکومت نے “علاقائی اور بین الاقوامی امن اور سلامتی میں اپنا مثبت حصہ ڈالنے کا” وعدہ کر رکھا ہے۔ صدر ٹرمپ نے امریکہ کو اس معاہدے میں دو سال اور 10 ماہ رہنے کے بعد 8 مئی 2018 کو نکالا۔ اس عرصےکے دوران ایرانی لیڈروں نے اس معاہدے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی آمدنی سے فوجی اخراجات اور دہشت گردی کی مالی مدد میں اضافہ کیا۔
امریکہ دہشت گردی کی مالی مدد کرنے کو حتمی طور پر روکنے اور وسائل اپنے ملک پر لگانے کے لیے ایرانی حکومت کو مجبور کرنے کے لیے اقتصادی پابندیوں کو استعمال کر رہا ہے۔
ہک کہتے ہیں کہ پابندیوں کی عدم موجودگی میں ایرانی حکومت اپنی خستہ حال فضائی فوج کو جدید بنانے کے منصوبوں پر عمل درآمد کرے گی اور اپنے میزائلوں کی درستگی سے نشانوں پر لگنے کو بہتر بنائے گی جس سے بحری جہازوں اور طیاروں پر حملے کرنے کی اس کی صلاحتیوں میں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے ایرانی صدر حسن روحانی کے اس بیان کا ذکر کیا جس میں ایرانی صدر نے کہا کہ پابندیوں کا خاتمہ حکومت کی ہتھیاروں کی فروخت کو آسان بنا دے گا۔ اس کے علاوہ روحانی نے پابندیوں میں توسیع کی صورت میں “منہ توڑ جواب” کی دھمکی بھی دی۔
ہک نے اپنے مضمون میں کہا، “ٹرمپ انتظامیہ کی ترجیحی حکمت عملی تو سلامتی کونسل کی طرف سے ہتھیاروں پر پابندی میں توسیع کرنا ہی ہے۔ (تاہم) امریکہ بہر طور پر یہ یقینی بنائے گا کہ تہران میں قائم متشدد اور انقلابی حکومت کے خلاف پابندیاں برقرار رہیں۔”