مشرق وسطی کے متعدد ممالک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر ایران کی حکومت پر عائد اسلحہ کی پابندی کی تجدید کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پابندی کا خاتمہ “لاقانونیت” کا سبب بنے گا۔
سعودی عرب، بحرین اور اسرائیل سب نےاُس پابندی کی تجدید کا مطالبہ کیا ہے جو کہ اکتوبر میں ختم ہونے جا رہی ہے۔ یہ ممالک ایرانی لیڈروں پر دہشت گردوں اور اپنے جنگجو آلہ کاروں کو مسلح کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس حکومت کو ہتھیاروں کے جدید نظام خریدنے کی اجازت دینا خطے کو خطرات سے دوچار کر دے گا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے نمائندے، عبد اللہ المعلمی نے یکم جولائی کو کہا، “خواہ یہ یمن میں ہو، یا لبنان یا شام یا عراق میں ہو، ایرانی طرز عمل کا مقصدغیرقانونی گروہوں کی حمایت اور ان کو بڑہاوا دے کر خطے میں انتشار پیدا کرنا ہے۔ اگر اکتوبر میں ہتھیاروں پر پابندی اٹھا لی جاتی ہے … تو پھر بس ہم تصور ہی کر سکتے ہیں کہ یہ طرزعمل کیا گل کھلائے گا۔”
29 جون کو امریکہ کے ہمراہ ایک مشترکہ اعلامیے میں بحرین نے کہا کہ ایرانی حکومت کا دہشت گردوں کو مسلح کرنا اور آلہ کاروں کو مسلح کرنا بحرین کی سلامتی کو نقصان پہنچاتا ہے۔
مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے، “خطے میں بالعموم اور بحرین میں بالخصوص، ایرانی اسلحہ کی منتقلی سے پیدا ہونے والے سنگین خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے، امریکہ اور بحرین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران پر اسلحہ کی پابندی ختم ہونے سے پہلے ہی اس میں توسیع کر دے۔”

ایران کے ہمسایہ ممالک کی جانب سے پابندی میں توسیع کے مطالبات سے امریکہ کے اِن انتباہوں کو تقویت ملتی ہے کہ دہشت گردی کی دنیا کی سرکردہ سرپرست ریاست کو جدید روایتی ہتھیاروں کی خرید و فروخت کی کھلی چھٹی دینا امن و سلامتی کے لیے خطرہ بن جائے گا۔ اِن ہتھیاروں میں لڑاکا طیارے، جنگی بحری جہاز، آبدوزیں اور گائیڈڈ میزائل بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کو حال ہی میں پتہ چلا ہے کہ پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، ایرانی حکومت اپنے آلہ کار گروہوں کو مسلح کرتی ہے اور یہ کہ نومبر 2019 اور فروری میں یمن کے ساحل سے پرے ضبط کیے جانے والے ہتھیاروں کا منبع ایران تھا۔ اقوام متحدہ نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ گزشتہ برس سعودی عرب کے تیل کے کنووں پر حملوں میں استعمال ہونے والے ہتھیار ایران سے آئے تھے۔
اقوام متحدہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اگر پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں تو ایران یمن میں حوتیوں اور لبنان میں حزب اللہ سمیت، پورے خطے میں لڑائیوں کی آگ بھڑکانے کے لیے آزادی سے ہتھیار فروخت کر سکے گا۔
امریکی وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے کہا ہے کہ امریکہ پابندی میں توسیع کے لیے اقوام متحدہ کی قرارداد منظوری کے لیے بھجوائے گا۔ تاہم (امریکہ کو) اس پابندی میں یک طرفہ طور پر توسیع کرنے کا قانونی اختیار بھی حاصل ہے۔ پومپیو نے 5 اگست کو کہا، “ہم ہر لحاط سے درست کام کریں گے۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ پابندی میں توسیع کی جائے۔”
The int’l community must extend the arms embargo on Iran. Otherwise, in October 2020, the regime will:
🔺scale up its military arsenal
🔺acquire advanced weapons
🔺which it will transfer to its terrorist proxies
🔺threatening the region and beyondhttps://t.co/bbd7Mjgm78 pic.twitter.com/QHOexdfyMx— Israel Foreign Ministry (@IsraelMFA) July 29, 2020
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مندوب، ڈینی ڈینن نے بھی پابندی میں توسیع کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے 14 جولائی کو روزنامہ واشنگٹن پوسٹ کو بتایا، “ہمیں یقین ہے کہ ایرانیوں سے نہ صرف اسرائیل کو بلکہ پوری عالمی برادری کو خطرات لاحق ہیں۔ ہم تمام ممالک کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ امریکی موقف کی حمایت کریں اور ایران کو مشرق وسطی میں مختلف گروہوں کو ہتھیار فراہم کرتے رہنے اور اس میں ملوث ہونے میں اضافہ کرنے کی اجازت نہ دیں۔”