
ایران میں احتجاجی مظاہرین، صحافی، اور حجاب پہننے سے انکار کرنے والی عورتوں سمیت سبھی کو مقدموں کے خطرات کا سامنا رہتا ہے۔
ایران میں انسانی حقوق کے مرکز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے نو وکلاء کو یا تو گرفتار کیا جا چکا ہے یا ان پر وکیل کی حیثیت سے کام کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ کم از کم پانچ وکیل جیل میں بند ہیں۔
مرکز نے 23 جون کی ایک رپورٹ میں کہا، “ایرانی عدلیہ کی جانب سے من گھڑت الزامات کے تحت آزاد وکلاء پر مقدمات چلانا جاری رکھنا، قانون کے بین الاقوامی معیار اور قانونی عمل کی تکمیل کے بارے میں ریاست کی عدم پاسداری کو آشکار کرتا ہے۔”
امریکی وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے ایران کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایرانی عوام سے بنیادی وقار کے ساتھ پیش آئے اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں میں کیے گئے اپنے وعدوں کی پاسداری کرے۔ ایران، ‘ شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی عہد نامے’ کا ایک فریق ملک ہے جس کے تحت من مانی گرفتاری کی ممانعت ہے۔
پومپیو نے 19 دسمبر2019 کو ایرانی حکومت کے تحت انسانی حقوق کے بارے میں تقریر کرتے ہوئے کہا، “ایران میں حقیقی خوشحالی صرف اس وقت آئے گی جب آپ اپنے لوگوں کو دہشت زدہ کرنا اور انہیں جیل بھیجنا بند کر دیں گے۔”
Civil rights lawyers in Iran are being imprisoned at an alarming pace while activists, dissidents, and dual nationals continue to be charged with trumped-up “national security” crimes.
Don’t look the other way @UNIndepJudges @IABA_National @IBAHRI: https://t.co/F9rJj7xdFf pic.twitter.com/7plKDjHgcp
— IranHumanRights.org (@ICHRI) June 25, 2020
انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے ارتکاب کی ایرانی حکومت کی تاریخ کو دستاویزی شکل میں اچھی طرح سے محفوظ کردیا گیا ہے۔ دسمبر 2018 میں اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایران کی سرزنش کی۔ ایسا کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے ایرانی حکومت کو “ہراساں کرنے، دھمکانے، ظلم و زیادتیاں کرنے، من مانی گرفتاریاں کرنے اور نظربندی میں ڈالنے” پر سخت تنبیہ کی۔
2020 میں ایران کے رہنماؤں نے جنوری میں ایک مسافر بردار طیارے کے مار گرانے پر حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبا کو قید کیا۔ حکومت نے سیاسی مخالفین، مزدور رہنماؤں اور دیگر لوگوں کو بھی جیل میں ڈالا۔ پیرس میں قائم “رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز” (سرحدوں سے ماورا صحافی) نامی گروپ نے فروری 2019 کی ایک رپورٹ میں بتایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے 1979 میں اپنے قیام سے لے کر 2009 تک، 860 صحافیوں اور شہری صحافیوں کو گرفتار کیا اور قید میں ڈالا۔
انسانی حقوق کے وکلاء کو حکومت اکثر نشانہ بناتی رہتی ہے۔
مارچ 2019 میں ایک جج نے انسانی حقوق کی وکیل، نسرین ستودے کو 33 سال قید اور 148 کوڑوں کی سزا دی۔ وہ سر سے دوپٹے اتارنے کے الزامات کا سامنا کرنے والی عورتوں کا دفاع کر رہی تھیں۔ اسی سال جولائی میں تین عورتوں کو حکومت کے حجاب کے قانون کے خلاف پُرامن احتجاج کرنے پر مجموعی طور پر 55 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انسانی حقوق کے ایک نامور وکیل، پیام درافشاں کو جون میں نامعلوم الزامات پر گرفتار کرنے کے بعد کسی نامعلوم مقام پر قید میں ڈال دیا گیا ہے۔ انہیں پہلے ہی “رہبر اعلٰی کی توہین” کے الزام میں معطل سزا دی جا چکی ہے اور ان پر دو سال تک وکیل کے طور پر کام کرنے پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔
“خواتین کے حقوق کے لیے ایک گروپ بنانے” کے الزام میں سہیلہ حجاب کو مئی میں 18 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
محمد نجفی نے حراست میں ہونے والی اموات پر جوابدہی کا مطالبہ کیا۔ رپورٹ کے مطابق، نجفی کو متعدد بار مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں 2019 میں 13 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
ایک میسیجنگ ایپ پر وکلا کے لیے ایک نیوز چینل بنانے کے نتیجے میں نومبر 2019 میں، امیرسالار داؤدی کو 30 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق، “غیر قانونی گروپ” بنانے کے الزام میں ان کی سزا میں 111 کوڑے بھی شامل تھے۔
2011 میں خود قیدی بننے سے پہلے، عبد الفتح سلطانی اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں ایک طویل عرصے تک ایران میں سیاسی قیدیوں کی پیروی کرتے رہے ہیں۔ سلطانی نے سات سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزارا اور اب ان کے وکیل کے طور پر کام کرنے پر پابندی لگی ہوئی ہے۔
