امریکہ ایران کی پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کی سپاہ (آئی آر جی سی) کو ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کر رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے 8 اپریل کو ایک بیان میں کہا، “یہ ایک ایسا اقدام ہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ محکمہ خارجہ کی قیادت میں اس اقدام کے تحت اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ ایران نہ صرف دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا ایک ملک ہے بلکہ آئی آر جی سی کو دہشت گردی میں سرگرم طریقے سے شامل کرکے، اس کو فروغ دے کر ملکی امور کو چلانے میں دہشت گردی کو ایک ذریعے کے طور پر بھی استعمال کرتا ہے۔”
انہوں نے اس بات پر زور دیا، “دہشت گردی کی عالمی مہم کو ہدایات دینے اور اسے عملی جامہ پہنانے میں آئی آر جی سی ایرانی حکومت کا بنیادی ذریعہ ہے۔”
ایران کی پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کی سپاہ کو 15 اپریل کو محکمہ خارجہ کی دہشت گردوں کی غیرملکی تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا جائے گا۔ اس فہرست میں حزب اللہ، حماس، فلسطینی اسلامی جہاد، کتائب حزب اللہ اور العشتر بریگیڈز سمیت 67 دیگر تنظیمیں شامل ہیں۔
امریکہ نے پہلی بار کسی ملک کے ایک حکومتی حصے کو ایک غیرملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔
ایران کی پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کی سپاہ 1979ء میں ملک کے اندر اور باہر حکومت کے انقلابی مقاصد حاصل کرنے کے لیے وجود میں آئی۔ یہ ایرانی افواج کے دائرہ اختیار سے باہر آزادانہ طور پر کام کرتی ہے۔ یہ صرف رہنمائے اعلٰی کو جواب دہ ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر تہران کی خطرناک اور عدم استحکام پیدا کرنے والی عالمی دہشت گردانہ مہموں کو عملی جامہ پہنانے اور ان کی سربراہی کرنے کے لیے، آئی آر جی سی اپنی قدس فورس کو استعمال کرتی ہے۔
آئی آر جی سی بہت سے ممالک میں دہشت پھیلاتی ہے
حالیہ برسوں میں آئی آر جی سی کی قدس فورس کی دہشت گردی کی منصوبہ بندی کو جرمنی، بوسنیا، بلغاریہ، کینیا، بحرین اور ترکی سمیت بہت سے ممالک میں بےنقاب اور اسے ناکام بنایا جا چکا ہے۔ محکہ خارجہ کے ایک حقائق نامے کے مطابق آئی آر جی سی:
- نے 2011ء میں امریکی سرزمین پر امریکہ میں سعودی سفیر پر ایک دہشت گرد حملے کی منصوبہ بندی کی۔ (خوش قسمتی سے یہ منصوبہ ناکام ہوا۔)
- کو 2018ء میں 1996ء میں سعودی عرب کے خُبر ٹاورز میں بم دھماکوں کا مرتکب پایا گیا۔ اس حملے میں 19 امریکی ہلاک ہوئے۔
- نے کینیا میں ایک بم حملے اور ترکی میں ایک حملے کی منصوبہ بندی کی۔ (آئی آر جی سی کے لوگوں کو 2012ء میں گرفتار کیا گیا۔)
- 2018ء میں جرمنی میں دہشت گردی کی ایک سازش میں ملوت تھی۔ اس کے علاوہ آئی آر جی سی کے ایک کارندے کو ایک جرمن-اسرائیلی گروپ کی جاسوسی کرنے کا مجرم پایا گیا۔

وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ آئی آر سی جی “ایک قانونی فوجی تنظیم کا بھیس بدل کر کام کرتی ہے اور ہم میں سے کسی کو [اسے ہمیں] بیوقوف بنانے کی اجازت نہیں دینا چاہیے۔ یہ ہمیشہ مسلح تصادموں کے ضابطوں کی خلاف ورزیاں کرتی ہے۔ یہ دنیا بھر میں دہشت گردانہ کاروائیوں کی منصوبہ بندی کرتی ہے، انہیں منظم کرتی ہے اور انہیں عملی جامہ پہناتی ہے۔”
وزیر خارجہ نے کہا کہ آئی آر جی سی جائز اور ناجائز طریقوں سے ایرانی معیشت کے ایک بڑے حصے کو بھی چلاتی ہے اور اسے کنٹرول کرتی ہے۔ انہوں نے کہا، “دنیا بھر کے کاروباروں اور بنکوں کا یہ مکمل فرض بنتا ہے کہ وہ یہ یقینی بنائیں کہ جن کمپنیوں کے ساتھ وہ مالی لین دین کرتے ہیں اُن کا کسی بھی لحاظ سے آئی آر جی سی سے کوئی تعلق نہ ہو۔”
ہر کام کا ایک نتیجہ ہوتا ہے
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران کی پاسدارانِ انقلاب کی سپاہ کی ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزدگی “تہران کو یہ واضح پیغام دیتی ہے کہ اس کی دہشت گردی کی حمایت کے سنجیدہ نتائج مرتب ہوئے ہیں۔”
ٹرمپ نے کہا، “ہم ایران کی حکومت کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی حمایت کرنے کی وجہ سے اُس پر تب تک مالی دباؤ بڑھانا جاری رکھیں گے جب تک وہ اپنے غیرقانونی اور بد نیتی پر مبنی رویے کو ترک نہیں کر دیتی۔”