لاکھوں ایشیائی نژاد امریکی نیا قمری سال منانے جا رہے ہیں۔ گریگورین کیلنڈر کے مطابق اس تہوار کی تاریخ سال بہ سال بدلتی رہتی ہے کیونکہ یہ تہوار قمری کیلنڈر کے پہلے نئے چاند سے منسلک ہے۔
اس برس روائتی چینی قمری کیلنڈر کے نئے سال کی تقریبات کا آغاز 22 جنوری کو اور اختتام 5 فروری کو ہوگا۔
پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق دو تہائی سے زیادہ چینی، کوریائی، جاپانی اور ویت نامی نژاد امریکی یہ تہوار مناتے ہیں۔ ایشیائی نژاد امریکیوں کی تعداد 22 ملین ہے اور اِن میں سب سے زیادہ (24%) چینی نژاد امریکی ہیں۔ لہذا نیا قمری سال منانے والے ایشیائی نژاد امریکیوں کا سب سے بڑا گروہ بھی چینی نژاد امریکیوں کا ہے۔ اس کے بعد ویت نامی نژاد امریکیوں کا نمبر آتا ہے۔

اگرچہ نئے قمری سال کے موقع پر امریکہ میں وفاقی چھٹی نہیں ہوتی تاہم نیویارک اور فلاڈیلفیا سمیت کچھ بڑے شہروں کے سکولوں میں اس دن چھٹی ہوتی ہے۔
ایشیائی نژاد امریکیوں کی امریکہ میں سب سے زیادہ آبادی (6 ملین افراد) ریاست کیلی فورنیا میں ہے۔ 2023 میں پہلی مرتبہ کیلی فورنیا میں اس دن سرکاری چھٹی ہوگی۔ میگی میاؤ میڈیا پروڈیوسر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کیلی فورنیا میں رہنے سے ایک بڑی کمیونٹی کے ساتھ نیا قمری سال منانا آسان ہو جاتا ہے۔ اُن کے معاملے میں یہاں کمیونٹی سے مراد اُن کے بیٹے کے مینڈرین سکول کے خاندان ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ”حقیقت میں ہم سال کے اس وقت کی قدر کرتے ہیں۔ گو کہ ہم اب چین میں نہیں رہتے مگر ہم جس سوچ سے جڑے ہوئے ہیں وہ خاندان کا تصور اور اِن اقدار کا احترام ہے۔”
ایک امریکی کے نزدیک نئے سال کی روایات کا امریکی رنگ

پیٹریشیا پارک ناول نگار اور انگریزی کی پروفیسر ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے نئے سال کو منانے کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ہم اپنے دادا دادی کی قبروں پر جاتے اور اس کے بعد اپنے چچا کے گھر پر ایک رسم ادا کرتے۔ انہوں نے بتایا کہ “سب بچے روائتی کوریائی لباس ‘ ہان بو‘ پہنتے اور ہم ‘ سے بے‘ یعنی بزرگوں کے سامنے احتراماً جھکتے۔ اس کے بعد ہم اپنے نئے سال کے پیسے لیتے۔”
اپنے کوریائی ورثے کی قدر کرنے والی پارک نے کہا کہ نیا قمری سال “ان روایات کو زندہ رکھنے کا ایک طریقہ ہے۔ ہم اِن روایات کو اپنا اپنا امریکی رنگ دیتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارا امریکہ نقل مکانی کرنا اِن روایات کو ختم کر دے گا۔”
وی ڈِنگ میسا چوسٹس یونیورسٹی، بوسٹن میں کمپیوٹر سائنس کی پروفیسر ہیں۔ وہ نئے قمری سال کو “چینی روایات کا سب سے بڑا تہوار” قرار دیتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اُن کے خاندان کے سب افراد مل کر اس تہوار کے دن اپنے ڈنر کے لیے ہمیشہ خوش قسمت [سموسہ نما] ڈمپلنگ بناتے ہیں۔
ڈِنگ کا کہنا ہے کہ بوسٹن کے نواحی علاقے لیگزنگٹن میں دن بدن بڑھتی ہوئی چینی نژاد امریکی کمیونٹی میں نئی روایات پروان چڑھ رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایشیائی نژاد امریکی گروپوں کے ورثوں کا تعلق مختلف ممالک سے ہے۔ وہ مشترکہ ڈنروں کا انعقاد کرتے ہیں۔ اِن میں سے بعض میں تقریبات کے میزبان کا کردار ادا کرنے کے لیے ثانوی سکولوں کے اُن غیرایشیائی نژاد امریکی طالبعلموں کو مدعو کیا جاتا ہے جو مینڈرین زبان سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ “لوگ زیادہ متنوع ہیں۔ چونکہ ہم زیادہ کھلا ذہن رکھتے ہیں اس لیے ہم نئے قمری سال کا تہوار سو فیصد روائتی انداز میں نہیں مناتے۔”