
چاہے وہ پہاڑ سے اڑ کر نیچے آ رہے ہوں، گیند پھینک رہے ہوں یا ہوا میں پیچیدہ قلابازیاں لگانے کے بعد زمین پر آ رہے ہوں، ایشیائی نژاد امریکی کھیلوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
نیو یارک کے سٹی کالج میں بشریات، صنفی اور بین الاقوامی مطالعات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر، سٹین تھنگراج کہتے ہیں، “مرکزی دھارے کی باسکٹ بال، فٹ بال اور بیس بال جیسی کھیلوں سے لے کر مختلف قسم کی دیگر کھیلوں تک، ایشیائی نژاد امریکی، ٹیم اور انفرادی سطح پر کھیلوں میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔” وہ کہتے ہیں کہ یہ کھلاڑی کھیلوں میں داخلے کی نئے دروازے کھول رہے ہیں۔ بعض اوقات وہ ایسا اپنے اُن سپر سٹار سرپرستوں کی طرف سے کی جانے والی تعریف کے نتیجے میں بھی کرتے ہیں جو اِنہی جیسے ورثے کے حامل ہوتے ہیں۔

ان رول ماڈلوں میں حالیہ ایشیائی امریکن اولمپینز بھی شامل ہیں۔ 2022 کے سرمائی کھیلوں میں امریکی سنو بورڈر کلوئی کِم نے (جن کے والدین جنوبی کوریا میں پیدا ہوئے تھے) صرف 21 سال کی عمر میں ہاف پائپ میں اپنا دوسرا طلائی تمغہ جیتا اور فگر سکیٹر نیتھن چن نے (جن کے والدین چین سے ہجرت کر کے آئے تھے) سونے کا تمغہ جیتا تھا۔

تاخیر سے شروع ہونے والے 2020 کے گرمائی اولمپکس میں جب امریکی جمناسٹ سیمون بائلز مقابلوں میں حصہ نہ لے سکیں تو سنیسا لی نے (جن کی والدہ اور سوتیلے والد مونگ النسل ہیں اور لاؤس سے ہجرت کر کے امریکہ آئے ہیں) کھیلوں کی ایک نامور کھلاڑی کی جگہ لی اور جمناسٹک کا آل راؤنڈ ٹائٹل جیتا۔ والی بال کی کھلاڑی جسٹین وونگ اورینٹیس نے (جو اپنی والدہ کی نسبت سے چینی النسل ہیں) اپنی ٹیم کو سونے کا تمغہ جتوایا۔

یونیورسٹی آف نیواڈا، لاس ویگاس میں بین الضابطہ، صنفی اور نسلی علوم کے اسسٹنٹ پروفیسر اور دوسری نسل کے فلپائنی نژاد امریکی، کانسٹینسیو آرنلڈو کا کہنا ہے، “لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے یہ ریکارڈ اب آ کر توڑا ہے۔” لیکن وہ کہتے ہیں کہ کھیلوں میں ایشیائی نژاد امریکیوں کی شرکت نوآبادیاتی دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر فلپائن میں امریکیوں نےوائی ایم سی اے [نامی تنظیمیں] بنائیں اور کھیلوں کو فروغ دیا۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ فلپائن کی باسکٹ بال لیگ این بی اے کے بعد دنیا کی دوسری قدیم ترین پیشہ وارانہ ٹیم ہے۔”
تھنگراج کہتے ہیں کہ چونکہ زیادہ سے زیادہ ایشیائی نژاد امریکی کھلاڑی اعلیٰ سطحوں پر مقابلے کر رہے ہیں، اس لیے بالغ عمر کے بہت زیادہ ایسے کھلاڑی ہیں جو نامور کھلاڑیوں کی اگلی نسل کی رہنمائی کر سکتے ہیں، ان کی پرورش کے لیے زیادہ لیگز ہیں اور پیشہ ورانہ کھیلوں میں مستقبل بنانے کے لیے اِن لوگوں کو نیٹ ورکنگ کے زیادہ مواقع دستیاب ہیں۔ کِم اور سکیٹرز مشیل کوان اور اپالو اینٹون اوہنو، اور باسکٹ بال کے کھلاڑی جیریمی لن کھیلوں میں شرکت کو فروغ دینے والے محکمہ خارجہ کے پروگراموں کے ذریعے دنیا بھر کے نوجوانوں تک پہنچ رہے ہیں۔
آرنلڈو بتاتے ہیں کہ ایشیائی امریکیوں کو بہت سے دقیانوسی تصورات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثلا وہ ایسی ذہین “مثالی اقلیتیں” ہیں جن کے لوگ بالعموم جسمانی طور پر زیادہ مضبوط نہیں ہوتے یا یہ کہ ایشیائی نژاد امریکی خواتین نازک ہونے کے ساتھ ساتھ اِن میں بہت نسوانیت ہوتی ہے جبکہ مردوں میں زیادہ مردانگی نہیں ہوتی۔

آرنلڈو کا کہنا ہے کہ اس طرح کے دقیانوسی تصورات کو ختم کرنے اور ایشیائی نژاد امریکیوں کو زیادہ پیچیدہ اور اہم افراد کے طور پر دیکھنے میں شروع کے پہل کاروں اور اولمپک کے حالیہ چیمینوں نے یکساں طور پر محنت کی ہے تاکہ عام لوگوں کی ان کو سمجھنے میں مدد کی جا سکے۔ باسکٹ بال کے کھلاڑی جیرمی لِن کے والدین تائیوان سے ہجرت کرکے امریکہ آئے تھے۔ لِن نے 2012 میں این بی اے کی ‘ نیو یارک نِکس’ نامی ٹیم کی مسلسل غیر متوقع کامیابیوں میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ انہوں نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ اِن کی چُستی بذات خود اُن دقیانوسی تصورات پر اِن کا ردعمل ہے جن کے مطابق ایشیائی امریکی خاموش یا غیر فعال ہوتے ہیں جبکہ “میرا اعلی ترین سطح پر باسکٹ بال کھیلنا الفاظ میں جو کچھ بیان کیا جا سکتا ہے اُس سے بذات خود کہیں زیادہ موثر ثابت ہوا ہے۔”
آج کے کھیلوں کے نامور کھلاڑیوں میں شمار ہونے والے مندرجہ ذیل کھلاڑی شروع کے بہت سے ایشائی نژاد امریکی پہل کاروں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں:-
- غوطہ خور وکٹوریہ منالو ڈریوز کے والد فلپائنی تھے۔ 1948 میں انہوں نے سپرنگ بورڈ اور پلیٹ فارم ڈائیونگ میں گولڈ میڈل جیتا اور وہ پہلی ایشیائی نژاد امریکی اولمپک چیمپئن بنیں۔ جنوبی کوریائی ورثے کے حامل اُن کے ساتھی غوطہ خور، سیمی لی نے بھی اسی اولمپکس میں پلیٹ فارم ڈائیونگ میں طلائی تمغہ جیتا۔
- کرسٹی یاماگوچی کے دادا دادی اور نانا نانی جاپانی تھے۔ وہ ایک عرصے تک فگر سکیٹنگ کے کھیل پر چھائی رہیں۔ اُن کا شمار نامور ایشیائی نژاد امریکی کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے 1992 میں اولمپک گولڈ جیتا۔ فگر سکیٹر مشیل کوان نے، جن کے والدین ہانگ کانگ سے چینی تارکین وطن ہیں، پانچ بارعالمی چیمپئن جیتی اور دو بار اولمپک تمغے جیتے۔ انہوں نے 1998 میں چاندی اور 2002 میں کانسی کا تمغہ جیتا۔
- اپالو انٹون اوہنو کے جاپانی نژاد والد نے اِن کی پرورش سی ایٹل میں کی۔ اوہنو نے 2002 سے 2010 تک سپیڈ سکیٹنگ میں آٹھ اولمپک تمغے جیتے۔
- ٹائیگر ووڈز کا شمار گولف کی دنیا کے عظیم ترین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ اُن کی والدہ کا نسب تھائی اور چینی تھا جب کہ اُن کے والد جزوی طور پر چینی تھے۔
- ہائنز وارڈ 14 سیزنوں تک ‘ پٹسبرگ سٹیلرز’ نامی فٹ بال ٹیم کے لیے کھیلتے رہے۔ بنیادی طور پر اُن کی والدہ کا تعلق جنوبی کوریا سے تھا۔
- جیرمی لِن نے نیویارک نِکس’ نامی ٹیم کی مسلسل شکستوں کو سات میچوں کی متواتر جیت کے سلسلے میں تبدیل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ 2012 میں اُن کے حوالے سے ” لِن سینیٹی” نامی ایک ڈرامہ بنایا گیا۔ اس ڈرامے کا نام اِن کی کنیت اور انگریزی لفظ اِنسینیٹی یعنی پاگل پن کو ملا کر “لِن سینیٹی” رکھا گیا۔
لِن نے حال ہی میں این بی سی ٹیلی ویژن کو بتایا، “معاشرے نے ہمیشہ یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ ایشیائی یہ کام نہیں کر سکتے۔ ایشیائیو، آپ یہ کام نہیں کر سکتے۔ آپ کو اس سے انگریزی کے محاورے ‘ بانس کی چھت’ [یعنی ایشیائیوں کے لیے رکاوٹوں] کی آواز آتی ہے۔
انہوں نے کہا، “اس لمحے کا مطلب [باسکٹ بال] کے ایک ہی کورٹ اور ایک ہی میدان میں مقابلہ کرنے کے قابل ہونا تھا۔ پھر اس کے بعد ہرانا اور غالب آنا اور جیتنا۔ میرے خیال میں مجھے واقعی اس پر فخر ہے۔”

ایشیائی امریکی باسکٹ بال کھلاڑیوں پر ایک کتاب کے مصنف تھنگراج کا کہنا ہے کہ لِن متاثر کن کھلاڑیوں اور ایشیائی نژاد امریکیوں کو دیکھنے کے طریقوں کو تبدیل کرنے میں ایک اہم شخصیت ثابت ہوئے ہیں۔ (تھنگراج امریکہ اور بھارت آتے جتے رہتے ہیں۔ بھارت میں وہ کرکٹ جبکہ امریکہ میں وہ باسکٹ بال اور بیس بال کھیلتے رہے ہیں۔)
وہ لِن سینیٹی کے بارے میں کہتے ہیں، “یہ وہ چیز تھی جس سے ہم سب منسلک رہنے کی کوشش کرتے رہے۔ معتدل مزاجی کو ایشیائی نژاد امریکیوں سے نہیں جوڑا جاتا تھا۔ یہ ایک خوبصورت چیز ہے۔”