
کسی کھیت میں بہت زیادہ پانی آ جانا وہاں سرے سے پانی نہ ہونے جتنا ہی نقصان دہ ہوتا ہے۔ اسی لیے انڈیا کے بِپلاب کیتن پال نے امریکہ کی مدد سے ایک ٹیکنالوجی ایجاد کی ہے جو کھیتوں سے فالتو پانی کو ہٹا کر اسے خشک موسم میں آبپاشی کے لیے زیرزمین جمع کر لیتی ہے۔
پال نے ایک حالیہ انٹرویو میں شیئر امریکہ کو بتایا کہ ”کسی کے پاس سیلاب اور خشک سالی پر قابو پانے کا کوئی واحد حل نہیں ہے۔”
پال کو 2004 میں امریکہ کے شہر میامی میں پینے کے پانی سے متعلق ایک تنصیب کے دورے میں اپنی اس دریافت کے لیے تحریک ملی تھی جب وہ دفتر خارجہ کے ‘انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام (آئی وی ایل پی) میں شرکت کے لیے امریکہ آئے ہوئے تھے۔ سالہا سال سے وہ انڈیا کے غریب دیہی علاقوں میں پانی کی فراہمی کو بہتر کرنے کا طریقہ تلاش کر رہے تھے۔ 2005 میں انہوں ںے بھونگرو نامی ٹیکنالوجی ایجاد کی جو زیرزمین پانی کو چھاننے اور ذخیرہ کرنے کے نظام میں استعمال ہوتی ہے۔ بھونگرو گجراتی زبان میں نلی یا کھوکھلے پائپ کو کہا جاتا ہے۔
پال کے کام کی بنیاد گاندھی کے اصول ‘انتیودیا’ پر ان کے یقین پر استوار ہے کہ معاشرے میں بہتری لانے کی خاطر انتہائی ضرورت مند لوگوں کی ہرممکن بہترین انداز میں مدد کرنا ضروری ہے۔

وہ اور ان کی اہلیہ تروپت جین نے، جو خود بھی آئی وی ایل پی کی تحت فارغ التحصیل ہیں، باہم مل کر 2011 میں نیریتا سروسز کے نام سے سماجی خدمت کا اقدام شروع کیا تھا جس کے تحت کسانوں کو بھونگرو ٹیکنالوجی یا بارش کے پانی کو آبپاشی کے لیے محفوظ رکھنے کے طریقہ ہائے کار کا استعمال سکھایا جاتا ہے۔
جین نے نیریتا کی کوششوں کو خاص طور پر خواتین کسانوں کو خود انحصاری کے حصول میں مدد دینے پر مرکوز رکھا ہے۔ جین جب بین الاقوامی تعلیمی تبادلے سے متعلق امریکہ کی حکومت کے سب سے بڑے اقدام ‘فل برائٹ پروگرام’ میں شریک تھیں تو انہوں نے دنیا بھر کے طلبہ کے ساتھ پانی کے امور اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق دیگر مسائل پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
پال کے مطابق 2011 میں نیریتا کے قیام کے بعد انڈیا، بنگلہ دیش، ویت نام اور گھانا میں قریباً 20,000 کسان بھونگرو سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔
تاہم ضرورت بہت بڑی ہے جس میں خاص طور پر کووڈ۔19 کے بعد اضافہ ہو گیا ہے۔ عالمگیر وبا نے لوگوں کو اپنی جگہوں تک محدود کر دیا تھا اور اشیا کی ترسیل کے عالمگیر نظام میں رکاوٹیں پیدا کیں جس سے پانی اور خوراک کی طلب میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اگرچہ نیریتا نے 2014 میں انڈیا سے باہر بھی کام شروع کر دیا تھا لیکن کووڈ سے متعلق سفری پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد اس کے کام کا دائرہ زیادہ وسیع ہو گیا ہے۔
پال بتاتے ہیں کہ اب جبکہ وبا کے بعد معیشتیں بحال ہو رہی ہیں تو نیریتا اور اس کے ساتھی غیرسرکاری ادارے ‘سسٹین ایبل گرین انیشی ایٹو فورم’ نے انڈیا، جنوب مشرقی ایشیا، مشرقی ایشیا اور افریقہ میں نئی شراکتیں قائم کی ہیں جن کا مقصد اندازاً 150,000 کسانوں کے لیے بارش کے فاضل پانی کو محفوظ رکھنے کا انتظام بہتر بنانا ہے۔
ایسی جگہوں میں بنگلہ دیش بھی شامل ہے جہاں 200 سے زیادہ کسانوں کو پہلے ہی بھونگرو یا بارش کے پانی کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے طریقہ ہائے کار کے استعمال کی تربیت لے چکے ہیں جبکہ وہاں مزید بہت سے کسانوں کو تربیت دینے کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔
افریقہ تک وسعت
‘ویمن فیڈ افریقہ’ نامی دیہی ترقیاتی پروگرام کے ساتھ شراکت نے بھونگرو ٹیکنالوجی اور آبپاشی کی تربیت کے عمل کو ذیلی صحارا افریقہ کے گرم اور خشک ماحول میں کام کرنے والے کسانوں تک پہنچانے میں مدد دی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کسی جگہ بارش کے پانی کو بھونگرو کے ذریعے محفوظ کرنے سے مقامی لوگوں کو نصف سال سے زیادہ عرصہ تک کھیتی باڑی میں مدد ملتی ہے جس سے کاشتکار خاندانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی زمین کو بنجر ہونے سے روکتی ہے، زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات جھیلنے کے قابل بناتی ہے اورحیاتی تنوع کو بحال کرتی ہے۔

پال کا کہنا ہے کہ امریکہ کی حکومت کی تربیت اور تعارف کی بدولت ہی وہ اور ان کی اہلیہ آبپاشی میں بہتری لانے کے لیے نیریتا کے کام کو دنیا بھر میں پھیلانے میں کامیاب ہوئے۔ وہ امریکی ادارہ برائے عالمی ترقی (یوایس ایڈ) کے سکیورنگ واٹر فار فوڈ پروگرام (ایس ڈبلیو ایف ایف) کے گریجوایٹ ہیں جس نے ایسی اختراعات کی رفتار تیز کی ہے جن سے پانی تک رسائی اور خوراک کی پیداوار بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔
اگرچہ ایس ڈبلیو ایف ایف پروگرام 2020 میں ختم ہو گیا تھا تاہم یوایس ایڈ اور جرمنی، نیدرلینڈز، سویڈن اور یورپی یونین کے امدادی ادارے ‘واٹر اینڈ انرجی فار فوڈ چیلنج’ نامی پروگرام کے ذریعے پائیدار زراعت میں بدستور مدد دے رہے ہیں۔
امریکہ کی حکومت کے پروگراموں نے نیریتا کو مختلف ممالک میں کام شروع کرنے کے طریقے وضع کرنے، منڈی کے حالات کا تجزیہ کرنے، نئے شراکت داروں کو تربیت دینے اور منصوبے کی کامیابی کو جانچنے میں مدد دی۔
”کیا آپ کی مون سون کی فصل سیم اور سیلاب سے محفوظ ہے اور کیا آپ سرما کی کوئی فصل حاصل کر سکتے ہیں؟” پال ان اہداف کے بارے میں پوچھتے ہیں جو نیریتا ہر کسان کے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ”اگر جواب ہاں میں ہے تو ہم کامیاب ہیں۔”