ایلسلویڈور، گوئٹے مالا اور ہنڈوراس میں بھوک کا خاتمہ

آلووں کے پودوں کے قریب بیٹھی ایک عورت (USAID/Hector Santos)
یو ایس ایڈ کا ادارہ ہنڈوراس کے کسانوں کو طویل خشک سالی، سیلاب اور فصلوں کی اقسام کی کمی جیسی مشکلات سے نمٹنے میں مدد کرتا ہے، جس کی وجہ سے ہنڈوراس کے خشک کوریڈور میں غذائی عدم تحفظ پیدا ہو گیا ہے۔ (USAID/Hector Santos)

ایلسلویڈور، گوئٹے مالا اور ہنڈوراس میں امریکی مالی اعانت سے چلنے والے پروگرام کسانوں کو اپنے کاشت کاری کے کاموں کو وسعت دینے اور متنوع بنانے میں مدد کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں یہ کسان اپنے خاندانوں کی ضروریات کو پورا کرنے اور اپنے اپنے ممالک میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کھانا کھلانے کے قابل ہوتے جا رہے ہیں۔

قحط  سے قبل از وقت خبردار کرنے کے نظاموں کے نیٹ ورک کے مطابق اِن تین ممالک میں لگ بھگ چار ملین افراد کو غذائی امداد کی ضرورت ہے۔

وہاں کے کچھ خاندان 2020 کے تباہ کن سمندری طوفانوں کے دوران اپنے گھروں یا معاش کے ذرائع سے محروم ہو گئے۔ کووڈ-19 وباء نے متبادل ذرائع مزید محدود کر دیئے۔ ان اور دیگر عوامل نے بہت سے لوگوں کو غیر قانونی ترک وطن کا خطرناک فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا۔

غیر قانونی ترک وطن کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کے امریکی حکومت کے منصوبے میں، جزوی طور پر شمالی وسطی امریکہ، خاص طور پر گوئٹے مالا، ہنڈوراس اور ایلسلویڈور میں غذائی امداد میں اضافہ کرنا اور زیادہ سے زیادہ اقتصادی مواقع پیدا کرنا شامل ہیں۔

امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے (یو ایس ایڈ) کے پروگرام مندرجہ ذیل طریقوں سے کسانوں کی آمدنی بڑھانے اور ان کے آبائی ممالک میں غذائی عدم تحفظ سے نمٹنے میں مدد کر رہے  ہیں:-

 گوئٹے مالا

 ایک بلند جگہ سے پہاڑی پر فصل کی بلند اور سرسبز قطاروں کے درمیان دو افراد کے کام کرنے کا منظر (USAID)
گوئٹے مالا کے مغربی پہاڑی علاقوں کی کمیونٹی کے لوگ کاشت کاری کرتے ہیں۔ (USAID)

یو ایس ایڈ کی مدد سے گوئٹے مالا کے مغربی پہاڑی علاقوں میں 1,500 کاشت کاروں نے اپنے کھیتوں میں ہاس قسم کے ایوا کاڈو کا اضافہ کیا۔ یہ پیشرفت بھوک کے خاتمے کے لیے شروع کیے گئے یو ایس ایڈ کے “فیڈ دا فیوچر” پروگرام کے تحت عمل میں آئی۔

فیڈ دا فیوچر پروگرام کے تحت پی آر او آئی این این او وی اے نامی اُس پراجیکٹ کی مدد کی جاتی ہے جس میں آواکاڈو کے ایک نئے پودے کو خریدنے والے کاشت کار کو گوئٹے مالا کی پوپویان نامی زرعی کمپنی کی جانب سے دوسرا پودا مفت دیا جاتا ہے۔ پی آر او آئی این این او وی اے “گوئٹے مالا میں زرعی قدر کے سلسلوں” کے انگریزی الفاظ کا مخفف ہے۔

2018 سے پوپویان اور اس کے  شراکت دار کسانوں نے تقریباً 263 ہیکٹر پر آواکاڈو کے درخت لگائے۔ 1,500 کاشت کاروں کے گروپ نے پہلے اور دوسرے سال آواکاڈو کی فصل چار ملین ڈالر میں فروخت کی۔

فیڈ دی فیوچر کے ایک اور پراجیکٹ کے تحت گوئٹے مالا میں کافی کے کاشت کاروں کی مرغیاں اور انڈے فروخت کرنے اور خود استعمال کرنے کے ایک منصوبے میں مدد کی جا رہی ہے۔ گزشتہ برس کافی کے کاشت کاروں کے خاندانوں نے چار ملین سے زیادہ انڈے اور 8,600 کلو گرام مرغیاں پالیں جن کی مالیت 590,000 ڈالر بنتی ہے۔

ہنڈوراس

 کیمیائی محلول میں اگنے والیں کچی اور پکی سٹرا بیریاں (Shutterstock.com)
کیمیائی محلول میں اگنے والیں سٹرا بیریاں (Shutterstock.com)

2021 میں یو ایس ایڈ نے نے جے جے ایگرو اور ایک اور زرعی مصنوعات تیار کرنے والی ایک اور کمپنی، ای ایس ایس اے این کے درمیان ایک اشتراک کی ثالثی کی۔ اس کا مقصد جے جے ایگرو کی ایسی سٹرا بیریوں سے تیز محلول تیار کرنے پر توجہ مرکوز کرنا تھا جو سائز کے حساب سے اس کمپنی کے گاہکوں کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ جب سے اس شراکت داری کا آغاز ہوا ہے، جے جے ایگرو کی آمدنی میں دس ہزار ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور اِس کے تخمینے کے مطابق مستقبلل میں یہ آمدنی بڑھکر  سالانہ چار لاکھ ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

ای ایس ایس اے این کی نئی شراکت سے اس کی ماہانہ فروخت میں 83% اضافہ ہوا ہے، جس سے کمپنی 10 نئے کل وقتی ملازمین کو، جو کہ تمام کی تمام خواتین ہیں روزگار فراہم کے قابل ہوئی ہے۔

نتیجہ: جے جے ایگرو کیمیائی محلول میں سٹرا بیریاں اگانے والی سب سے بڑی کمپنی بن گئی ہے۔ اس کمپنی نے ساڑھے چار لاکھ کلوگرام سٹرا بیریاں اگائیں جن کی مالیت دو ملین ڈالر بنتی ہے۔

ایلسلویڈور

 مرچوں کے پودوں کی قطاروں کے درمیان کھڑے تین آدمی، دو عورتیں اور ایک لڑکا (USAID)
ایلسلویڈور میں ایک کسان خاندان ہاتھوں میں مرچیں کڑے ہوا کھڑا ہے۔ (USAID)

ایلسلویڈور کے مغربی حصے میں یو ایس ایڈ ایک ہزار کمزور کاشت کار خاندانوں کو کم پانی کے استعمال سے بہتر پیداوار حاصل کرنے کے طریقے سکھانے میں مدد کرتا ہے۔ اس میں کاشتکاری کے ‘ ڈرپ ایریگیشن’ جیسے طریقے شامل ہیں۔ اس طریقے کے تحت ہر پودے کو پانی کی مقرر شدہ مقدار کو پانی کی ٹیوبوں کے ساتھ لگائے گئے ایمٹرز کے ذریعے پودے کی جڑوں تک پانی پہنچایا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مٹی کے ضیاع اور کٹاؤ اور کاشت کاری کے دیگر مسائل سے نمٹنے میں آسانی رہتی ہے۔

پانی کی کفایت شعار استعمال کی حامل زراعت کے طریقوں سے کام کرنے والے کسان فصل کی پیداوار میں اضافہ کرتے ہیں اور خشک سالی اور شدید بارشوں کا سامنا کرنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہوتے ہیں۔