صدر بائیڈن نے 25 جولائی کو ایک اعلانِ عام پر دستخط کیے جس کے تحت ایمِٹ ٹِل اور میمی ٹل-موبلی سے منسوب ایک قومی یادگار قائم کی جائے گی۔ یاد رہے کہ اگر ایمِٹ ٹِل آج زندہ ہوتے تو 25 جولائی اُن کی بیاسویں سالگرہ ہوتی۔
شکاگو کے رہنے والے سیاہ فام ٹِل 1955 میں 14 برس کے تھے جب ایک سفید فام عورت نے اُن پر چھیڑ چھاڑ کا الزام لگایا جس کے بعد کم از کم دو سفید فام مردوں نے انہیں نسلی بنیادوں پر بٹی ریاست مسِس سپی میں مار مار کر ہلاک کر ڈالا۔ ٹِل کے قتل پر کسی کو بھی قانونی طور پر جوابدہ نہ ٹھہرایا گیا۔ اس سانحہ نے شہری حقوق کی مہم میں تیزی پیدا کرنے میں مدد کی۔
بائیڈن نے کہا کہ “ہمیں اس سچائی … کا علم ہونا چاہیے کہ ہم بحیثیت قوم کون ہیں۔ … کیونکہ صرف سچ سے ہی [زخم] بھرتے ہیں، انصاف ہوتا ہے، اعتماد پیدا ہوتا ہے اور ایک زیادہ کامل اتحاد کی تشکیل کی سمت میں اگلا قدم اٹھتا ہے۔”

یہ قومی یادگار مندرجہ ذیل تین تاریخی مقامات پر مشتمل ہوگی:-
- گلینڈورا، مسِس سِپی کے قریب گریبال لینڈنگ جہاں سے حکام کو ٹِل کی مسخ شدہ لاش ملی۔
- شکاگو کا ‘رابرٹس ٹیمپل چرچ آف گاڈ اِن کرائسٹ’ نامی گرجا گھر جہاں میمی ٹِل-موبلی نے [اُن کے الفاظ میں] “لوگ بھی وہ دیکھیں جو میں نے دیکھا ہے” کی غرض سے اپنے بیٹے کا کھلا تابوت رکھا۔
- سمنر، مسِس سِپی میں واقع ٹلاہاچی کاؤنٹی کے سیکنڈ ڈسٹرکٹ کی عدالت جہاں ٹِل کے دو قاتلوں پر مقدمہ چلایا گیا۔ گو کہ سفید فاموں پر مشتمل جیوری نے اِن قاتلوں کو بری کر دیا مگر بعد میں ان دونوں قاتلوں نے ٹِل کو مار مار کر ہلاک کرنے کا اعتراف کیا۔
اس اعلان عام پر دستخط کرنے کے موقع پر نائب صدر ہیرس نے کہا کہ “محب وطن ہونے کی حیثیت سے ہمیں علم ہے کہ ہمیں اپنی پوری تاریخ کو یاد رکھنا اور سکھانا چاہیے بھلے یہ تکلیف دہ ہی کیوں نہ ہو۔ [اور ہمیں]خاص طور پر [ایسا اُس وقت کرنا چاہیے] جب یہ تکلیف دہ ہو۔”