
تنزانیہ کی ایڈیلیڈ مواسیوگے نے بزنس سکول سے نئی نئی گریجویشن کی تھی اور اپریل 2020 میں مہمان نوازی اور سیاحت کے شعبے میں ملازمت شروع کرنے کی تیاری کر رہی تھیں۔ مگر جب کووڈ-19 وبا پھوٹی تو اُن کی ملازمت کی پیشکش ختم ہو گئی۔
مواسیوگے اپنی مایوسی کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ “یہ ایک انتہائی خوفناک صورتحال تھی۔” مگر اِس مایوسی نے مواسیوگے کو “آرچرڈ ایوا کاڈو آئل” کے نام سے اپنا کاروبار شروع کرنے کی راہ دکھائی۔ اُن کا یہ کاروبار خوراک کے ضیاع کو روکتا ہے اور اُن کے لیے بذات خود اور دیگر بے روزگاروں کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ “میں ہر قسم کے کام کے لیے تیار تھی۔ مجھے کسی کام کا تجربہ نہیں تھا۔”
لیکن کورونا کی وبا کے نتیجے میں برپا ہونے والی معاشی تبدیلیوں میں مواسیوگے کو ایک موقع دکھائی دیا۔ تنزانیہ کی برآمدات کی منڈیاں ٹھپ ہو چکی تھیں اور مقامی منڈیوں تک خوراک پہنچانے کی لاگتیں قیمت فروخت سے بڑھ گئی تھیں۔ مواسیوگے نے دیکھا کہ اِن حالات میں ایوا کاڈو کا چھوٹے سائز کا پھل عام طور پر بِک نہیں پاتا بلکہ یہ عام معاشی حالات میں بھی نہیں بکتا۔
حالانکہ مواسیوگے کے دادا ایوا کاڈو کا پھل کاشت کیا کرتے تھے اور انہوں نے مواسیوگے کو بچپن میں اِس صنعت کے بارے میں بتایا بھی مگر اس کے باوجود مواسیوگے کے پاس ایوکاڈو تیل کے کاروبار کے اپنے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے نہ ہی مہارت تھی اور نہ سرمایہ تھا۔

امریکی حکومت “اکیڈیمی فار ویمن انٹرپرینیئور” یا اے ڈبلیو ای کے نام سے ایک پروگرام چلاتی ہے۔ مواسیوگے نے اس پروگرام کے ذریعے کاروبار کے لیے درکار تربیت حاصل کی اور رابطے تلاش کیے۔ وہ کہتی ہیں کہ “یہ میری خوش قسمتی ہے کہ اے ڈبلیو ای نہ صرف ایسی خواتین کے لیے ہے جو پہلے ہی سے کاروبار کر رہی ہیں بلکہ اُن کے لیے بھی ہے جو ذہن میں اپنے کاروبار کا ایک تصور لیے اور آنکھوں میں خواب بسائے بیٹھی ہیں۔”
2019 کے بعد سے اب تک اے ڈبلیو ای کے تحت سولہ ہزار سے زائد خواتین کی تعلیم حاصل کرنے، نیٹ ورکس بنانے اور بزنس شروع کرنے یا بڑہانے کے لیے درکار رسائی فراہم کرنے میں مدد کی جا چکی ہے۔ مواسیوگے کا شمار تنزانیہ کی اس پروگرام سے مستفید ہونے والی 160 خواتین میں ہوتا ہے۔ تنزانیہ میں اے ڈبلیو ای پروگرام اپنی مقامی شراکت کار تنظیم سیلفینا کی شراکت سے دارالسلام میں امریکی سفارت خانے کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔
اے ڈبلیو ای پروگرام میں عالمی نظامت کاری کے “تھنڈر برڈ سکول آف گلوبل مینجمنٹ” کے آن لائن “ڈریم بلڈر” نامی کورس کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس کورس میں شرکاء کو اپنے کاروباری تصورات کو پرکھنا، کاروباری منصوبہ بنانا اور روزمرہ کے کاروباری کام کرنے سکھائے جاتے ہیں۔ سرپرست حقیقی دنیا کے اپنے تجربات پر مبنی اور مقامی معیشت کے لیے موزوں مشورے بھی دیتے ہیں۔
اے ڈبلیو ای پروگرام مکمل کرنے کے بعد مواسیوگے کو “یو ایس افریقن ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن” [یو ایس اے ڈی ایف] سے ایواکاڈو سے تیل نکالنے والی مشین خریدنے کے لیے امداد ملی۔ یو ایس ڈی اے ایف کے ساتھ امریکی محکمہ خارجہ کی شراکت کے تحت اے ڈبلیو ای کے مخصوص سابقہ شرکاء اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے فنڈز حاصل کر سکتے ہیں۔

اب مواسیوگے اپنے کمپنی “آرچرڈ ایوا کاڈو آئل” کی تمام پہلوؤں سے نگرانی کرتی ہیں۔ وہ اس پھل کو توڑنے کے دنوں میں دیہاتوں میں جاتی ہیں، کسانوں کے ساتھ کام کرتی ہیں اور معیاری پھل کو یقینی بناتی ہیں۔ اُن کی کمپنی میں دو کل وقتی، 20 موسمی ملازمین کام کرتے ہیں اور اُن کی کمپنی تقریباً 200 کسانوں کے ساتھ شراکت داری کرتی ہے جن میں سے تقریباً آدھی تعداد خواتین کسانوں پر مشتمل ہے۔
مواسیوگے کے کاروبار شروع کرنے سے پہلے اُن کے دادا انتقال کر گئے تھے۔ مگر اُن کے دادا نے انہیں اے ڈبلیو ای سے گریجوایشن کرتے اور اپنی خواہشات کے لیے محنت کرتے ہوئے دیکھا۔ مواسیوگے نے بتایا کہ “میں اے ڈبلیو ای میں ایک خواب لے کر گئی تھی اور کاروبار لے کر نکلی۔ یہ سب کچھ اے ڈبلیو ای اور یو ایس اے ڈی ایف کی وجہ سے ممکن ہوا۔”
محکمہ خارجہ کا تعلیمی اور ثقافتی امور کا بیورو اس مضمون کو ایک مختلف شکل میں پہلے بھی شائع کر چکا ہے۔