ٹی بی اور ایچ آئی وی کا شمار دنیا کے دو مہلک ترین انفیکشنوں میں ہوتا ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کو ایک ہی وقت میں یہ دونوں بیماریاں ہو جائیں، تو ہر بیماری دوسری بیماری کہ شدت کی رفتار کو تیز کردیتی ہے۔
دو بہت بڑے تحقیقی اداروں نے اس سال ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جسے ان کے حامیوں نے ایک جرات مندانہ قدم قرار دیا ہے۔ ان اداروں نے طے کیا ہے کہ وہ اپنے وسائل کو مجتمع کریں گے اور ایچ آئی وی اور ٹی بی کے مشترکہ انفیکشن کی وبا کے خاتمے کے لیے ایک نیا انسٹی ٹیوٹ قائم کریں گے

اس کوشش کی توجہ کا مرکز جنوبی افریقہ ہے، جہاں ٹی بی کے تقریباً تین چوتھائی مریضوں کو ایچ آئی وی کا انفیکشن بھی لگ چکا ہے۔ دنیا بھر میں، 2015 میں ایچ آئی وی کے ہر 3 مریضوں میں سے 1 کی موت ٹی بی کی وجہ سے ہوئی ہے۔
جنوبی افریقہ کے ایک ساحلی صوبے کوازولو- نٹال میں قائم کیے جانے والے افریقہ ہیلتھ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، میں دو اداروں یعنی افریقہ سینٹر فار پاپولیشن ہیلتھ اور کوازولو- نٹال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار ٹی بی-ا یچ آئی وی کو اکٹھا کر دیا گیا ہے۔

اس نئے منصوبے کو امریکہ میں قائم ہاورڈ ہیوز میڈیکل انسٹی ٹیوٹ اور برطانیہ میں قائم ویلکم ٹرسٹ نے مالی امداد مہیا کی ہے۔
اس منصوبے میں تحقیق کے مختلف شعبوں کے ماہرین کو اکٹھا کیا گیا ہے جس سے افریقی سائنسدانوں کی نئی نسل کو تربیت دینے میں مدد ملے گی۔ اس کے حامی کہتے ہیں کہ اس منصوبے کو ساری دنیا میں ایچ آئی وی اور ٹی بی کو شکست دینے کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت سے پیش کیا جا سکے گا۔
انسٹی ٹیوٹ کے نئے ڈائریکٹر دینان پلّے کہتے ہیں، “کوازولو- نٹال کو ایچ آئی وی اور ٹی بی کی دو وباؤں کے خلاف جنگ میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔”
وہ کہتے ہیں، “ساری دنیا میں صرف یہی ایک جگہ ہے جہاں علوم کے مختلف شعبوں کو یکجا کرنے سے ایچ آئی وی کے نئے انفیکشن اور ٹی بی کے پھیلنے کے کیسوں پر سب سے زیادہ اثر پڑ سکتا ہے۔”
ایسے لوگوں کے علاج میں جنہیں بیک وقت یہ دونوں انفیکشن ہوتے ہیں، ایک دشواری یہ ہے کہ ٹی بی کے علاج اور ایچ آئی وی کے وائرس کو ختم کرنے کی دواؤں، دونوں کے ضمنی اثرات ہوتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ اکثر اپنے علاج میں استعمال ہونے والی دوائیں باقاعدگی سے نہیں لیتے۔ نئے انسٹی ٹیوٹ کے قیام سے، امید ہے کہ یہ صورتِ حال بدل جائے گی۔