ایچ آئی وی ویکسین کی تیاری کی امید

امریکی معاونت سے طبی محققین ایسی ویکسین کی تیاری کے قریب پہنچ گئے ہیں جو لوگوں کو انسانی مدافعتی نظام کو نشانہ بنانے والے وائرس (ایچ آئی وی) سے متاثر ہونے سے روک سکتی ہے۔ اس سے دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں میں امید کی ایک کرن پیدا ہوگئی ہے۔

متعدد اقسام کے ‘اینٹی ریٹرو وائرل علاج’ کی بدولت اب اس وائرس سے متاثرہ 20 سال کے لگ بھگ عمر کے لوگ اوسطاً مزید 53 برس جینے کی توقع رکھ سکتے ہیں اور اس امر کا امکان بھی ہے کہ شاید انہیں ایڈز کا مرض کبھی بھی نہ لگے۔ 1980 کی دہائی میں ایڈز میں مبتلا ہونے والے افراد کے لیے یہ اوسط قریباً ایک سے دو برس تک ہوا کرتی تھی۔

الرجی اور وبائی بیماریوں سے متعلق قومی ادارے کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر انتھونی فاؤسی کہتے ہیں، “اس بیماری کو روکنے کے لیے کیے جانے والے علاج معالجوں میں کامیابیوں کی شرحیں حیران کن ہیں۔” تاہم اقوام متحدہ کے مطابق جہاں علاج کی بدولت  ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی زندگی کا دورانیہ بڑھانے میں مدد ملی ہے وہیں بدقسمتی سے 2016 میں 18 لاکھ لوگں اس وائرس کا شکار ہوئے۔

دو تجربات جاری ہیں

فاؤسی نے اس وقت جنوبی افریقہ میں جاری دو طبی تجربات کے متعلق بتایا جو جزوی طور پر قومی ادارہ برائے صحت (این آئی ایچ) کی مالی معاونت سے چل رہے ہیں۔ ان تجربات سے ایسی ویکسین سامنے آ سکتی ہے جو ایچ آئی وی سےہونے والے  نئے انفیکشنوں کو روکے گی۔

‘امبوکوڈو’ نامی ایک جائزے کا مقصد افریقہ کے ذیلی صحارا خطے میں 2600 خواتین  کو مذکورہ تجرباتی ویکسین کے محفوظ ہونے اور با اثر ہونے کا اندازہ لگانے کے لیے بھرتی کرنا ہے۔ افریقی زبان ‘زولو’ میں ‘امبوکوڈو’ کا مطلب ‘چٹان’ ہے اور خواتین کی قوت اور معاشرے میں ان کی اہمیت کے پیش نظر اس سروے کو یہ نام دیا گیا ہے۔

نیوجرسی میں قائم جانسن اینڈ جانسن کمپنی کی قیادت میں ہونے والے امبوکوڈو تجربے کا دائرہ ملاوی، موزمبیق، زیمبیا اور زمبابوے تک پھیلائے جانے کی امید ہے۔ محققین کو 2021 میں اس تجربے کے نتائج سامنے آنے کی توقع ہے۔

تھائی لینڈ میں جاری ایک اور جائزے میں پہلے سے تیار کی گئی ایک تجرباتی ویکسین کی نئی قسم کو جانچا پرکھا جا رہا ہے جس سے امید افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔ سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ اس کے نتائج 2020 کے اواخر میں سامنے آ جائیں گے۔

جنوبی افریقہ میں ایڈز پروگرام سے متعلق تحقیقی مرکز سے وابستہ کیتھی منگاڈی کہتی ہیں، “دونوں تجربات ایچ آئی وی انفیکشن کی روک تھام کے لیے ویکسین تیار کرنے کی غرض سے سائنس کی حالیہ بہترین کوششوں کی غمازی کرتے ہیں۔ ہم جنوبی افریقی ممالک کے لوگوں کے مشکور ہیں جنہوں نے رضاکارانہ طور پر خود کو ان تجربات کے لیے پیش کیا اور ان معاشروں کے شکرگزار ہیں جہاں ایسی دوا کی تیاری کے لیے تجربات میں مدد ملی جو ایچ آئی وی/ ایڈز کی وبا کے حوالے سے صورتحال تبدیل کر سکتی ہے۔” جنوبی افریقہ کی طبی تحقیقی کونسل اس جائزے کو عملی جامہ پہنانے میں مدد کر رہی ہے۔

جانسن اینڈ جانسن کے مطابق، تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ایچ آئی وی ویکسین کے حوالے سے تحقیق کسی حد تک  اس وائرس کی منفرد خصوصیات کی بنا پر مشکل رہی ہے۔ ان خصوصیات میں اس کی تیزی سے خود کو تبدیل کرنے کی صلاحیت اور مختلف اقسام کے ساتھ اس کا عالمگیر جینیاتی تنوع اور دنیا کے مختلف حصوں میں اس کی ذیلی اقسام کی موجودگی شامل ہیں۔

علاج کیوں اہم ہے

فاؤسی کا کہنا ہے کہ ویکسین کی تیاری میں وقت لگے گا اور انہوں نے خبردار کیا کہ ایچ آئی وی/ ایڈز کے حوالے سے مطمئن ہو کر مت بیٹھا جائے۔

فاؤسی کہتے ہیں، “ایچ آئی وی کے علاج اور اس کی روک تھام کے سلسلے میں تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود ہمیں عملدرآمد کے حوالے سے سنگین قسم کی خامیوں کا سامنا ہے۔” فاؤسی نے بتایا کہ ایچ آئی وی سے متاثرہ 30 فیصد نئے لوگوں کو اپنی بیماری کا علم ہی نہیں اور 60 فیصد کا مناسب علاج نہیں ہو رہا۔ ان کا کہنا ہے، “ہم عملدرآمدی کوششوں کو بہتر بنا کر لازمی طور سے اس وبا کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ …  ابھی ہم آرام سے نہیں بیٹھ سکتے۔”

یہ مضمون فری لانس لکھاری ویسلی تھامپسن کا تحریر کردہ ہے۔