
جب 15 برس قبل کیپ ٹاون، جنوبی افریقہ میں بابلوا امبونو کا ایچ آئی وی کے ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آیا یعنی انہیں ایڈز کے مرض لگنے کی تصدیق ہوئی تو انہیں ایسا لگا کہ جیسے انہیں اور ان کے پیٹ میں موجود بچے کو سزائے موت کا پروانہ مل گیا ہو۔
امبونو کہتی ہیں “جن لوگوں میں ایچ آئی وی/ایڈز کی تشخیص ہوجاتی تھی ایسے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ان کی بدنامی کا یہ عالم ہوتا تھا کہ وہ سامنے آنے سے ڈرتے تھے۔ آپ کو دھتکار دیا جاتا تھا، آپ دوسروں کے ساتھ مل جل نہیں سکتے تھے کیونکہ لوگ ڈرتے تھے کہ کہیں انہیں بھی ایچ آئی وی نہ ہو جائے۔”
اس بات کو پندرہ برس بیت گئے ہیں۔ 17 مئی کو وہ اور ان کی صحت مند بیٹی اناتھی واشنگٹن میں موجود تھیں۔ دونوں ماں بیٹی اب ایچ آئی وی سے پاک ہیں۔ وہ وہاں اپنی داستان سنا رہی تھیں۔ ان کے نزدیک بہت سی جانوں کا زندہ بچ جانا امریکی صدر کے ایڈز سے نجات کے ہنگامی منصوبے یعنی پیپفار کا مرہون منت ہے۔
امبونو کی بیٹی ایچ آئی وی سے پاک پیدا ہوئی تھیں کیونکہ انہیں بعد از تشخیص “مدرز 2 مدرز” نامی ایک تنظیم سے رجوع کرنے کو کہا گیا ۔ “مدرز2مدرز” ایک امریکی پروگرام ہے جو ایچ آئی وی سے متاثرہ ماؤں اور ان کے خاندانوں کو تربیت فراہم کرتا ہے۔ اس پروگرام کو سرمائے کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ پیپفار ہے جو کہ امریکہ کی مالی معاونت سے ایڈز سے نمٹنے کا ایک پروگرام ہے۔

امبونوکہتی ہیں، “مجھے ایچ آئی وی کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتہ تھا۔ میں بہت سہمی ہوئی تھی اور میں نہیں جانتی تھی کہ کیا کروں۔ میں سوچتی تھی کہ بچہ مر جائے گا۔” امبونو کو “مدرز2مدرز” سے تعلق رکھنے والی ایک “سرپرست ماں” کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ امبونو نے بتایا، “میری اس سرپرست نے مجھے تسلی دی، اور ایچ آئی وی کے علاج کی خاطرمیرے لیے بات کی۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس علاج سے میرا بچہ ایچ آئی وی کا مرض لگنے سے محفوظ رہے گا۔”
“تب مجھے ایسا محسوس ہوا کہ زندگی واپس لوٹ آئی ہے۔ میں زندہ رہوں گی۔”
~ بابلوا امبونو
آج تک پیپفار نے ایک کروڑ 40 لاکھ سے زائد زندگیاں بچائی ہیں اور 2 کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ ایسے بچوں کو ایچ آئی وی سے بچایا ہے جن کی مائیں ایچ آئی وی سے متاثرہ تھیں۔ ایچ آئی وی کی وبا کے خلاف ان تمام کامیابیوں کے باوجود، زیریں صحارا، افریقہ میں ہر ہفتے تقریبا 7 ہزار بالغ لڑکیاں اور نوجوان عورتیں ایچ آئی وی کا شکار ہو رہی ہیں۔
اس تنظیم کی شریک بانی رابن سمالی نے بتایا کہ ایڈز کے اس بڑہتے ہوئے رجحان سے نمٹمے کی خاطر نوجوان ساتھی سرپرستوں کوملازمتیں دینے سمیت نوجوانوں کے لیے پروگرام تیار کیے گئے ہیں تاکہ سکولوں اور نوجوانوں کے کلبوں جیسے نوجوان دوست مقامات پر خدمات مہیا کی جا سکیں۔

ایک سرپرست ماں سے مدد حاصل کرنے کے بعد اب امبونو خود ایک سرپرست ماں بن چکی ہیں۔ اب وہ ایچ آئی وی سے متاثرہ ماؤں کی مدد کے لیے دوسری سرپرست ماؤں کو تربیت دینے کی خاطر پورے جنوبی افریقہ میں سفر کرتی ہیں۔ ان کی بیٹی، اناتھی نوجوانوں کی سرپرست بن رہی ہیں تاکہ نوجوانوں کو وہ ایسی معلومات فراہم کر سکیں جن سے وہ جان سکیں کہ ایچ آئی وی سے پاک صحت مند زندگی کیسے گزاری جا سکتی ہے۔ اناتھی کہتی ہیں،”نوجوانوں کو کسی ہم عمر سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اس کے ساتھ کھل کر بات کر سکیں اور اپنی اپنی کہانیاں سنا سکیں۔”
امبونو کہتی ہیں کہ پیپفار سے قبل “زیادہ تر بچے مر رہے تھے، مائیں مر رہی تھیں۔ ہر اختتام ہفتہ ایچ آئی وی سے مرنے والے بچوں کے جنازوں پر جنازے اٹھائے جا رہے تھے”۔ پیپفار نے زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔ بچے اب نہیں مر رہے، مائیں اپنی بھرپور زندگیاں جی رہی ہیں۔ ہم آج جس مقام پر ہیں یہاں پہنچنے کے لیے ہم نے سخت محنت کی ہے اور ہم اناتھی جیسی بچیوں کی زندگیاں بچا رہے ہیں۔ ہمیں تھک ہار کر نہیں بیٹھ جانا چاہیے۔ ہمیں ایچ آئی وی سے پاک رکھیں۔”