2016 میں ایکواڈور کا غریب صوبہ مانابی جب زلزلے سے تباہ ہوا تو یاڈیرا مارٹیلو کا کچے کیلے سے چپس بنانے کا کاروبار بھی ٹھپ ہوگیا۔ سڑکیں بند ہونے کے باعث سامان کی ترسیل مشکل ہو چکی تھی۔ لوگ اس قدرتی آفت کے اثرات سے نمٹنے میں مصروف تھے اور ایسے میں ان کی اشیا کے خریدار تو درکنار انہیں بیچنے کے لیے لوگ بھی دستیاب نہیں تھے۔
ان حالات میں چیزوں کی فروخت ہی متاثر نہ ہوئی بلکہ مارٹیلو کے دوست اور اہلخانہ اپنی جائیداد سے بھی محروم ہوگئے اور بعض لوگوں کی جان بھی گئی۔ (7.8 کی شدت سے آنے والے اس زلزلے میں 700 افراد ہلاک اور 6000 زخمی ہوئے۔)
مارٹیلو نے تحریری اور ترجمہ شدہ گفتگو میں بتایا،”اس وقت ہمیں اچھی طرح نیند بھی نہ آئی کیونکہ ہمیں خوف تھا کہ کہیں زلزلہ دوبارہ نہ آ جائے۔ اس کے بعد ہماری پیداوار میں کمی آ گئی۔”
اس وقت مارٹیلو کے خاندان کی ملکیت’ ‘شفلز ڈیل کیمپو” نامی یہ نیا کاروبار مانابی صوبے کے شہر پاجان میں قائم تھا۔ یہ لوگ کچا کیلا تیار کر کے اس سے چپس بناتے تھے۔ یہ کاروبار جست اور بانس سے بنے ایک سادہ سے چھپر تلے ہوتا تھا۔
پیش رفت
مگر ایک کاروباری دوست کے اختراعی خیال کی وجہ سے حالات نے پلٹا کھایا۔
زلزلے کے بعد مارٹیلو نے ”مشن مانابی” نامی پروگرام میں درخواست دی جس کے تحت صوبے کے چھوٹے کاروباری مالکان کو اکاؤنٹنگ، مارکیٹنگ اور انتظامی صلاحیتوں کی تربیت دی جاتی تھی۔ ان لوگوں کو اپنا کاروبار اگلے مرحلے میں لے جانے کے لیے یہ صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔ اس پروگرام کا مقصد قدرتی آفت کے بعد چھوٹے کاروباری مالکان کو دوبارہ پاؤں پر کھڑا کرنا تھا۔
زلزلے سے ہونے والے نقصان کی تلافی کے لیے 2017 کے اواخر میں ”مشن مانابی” کا آغاز ہوا۔ یہ ”امریکی براعظموں کے نوجوان رہنماؤں سے متعلق اقدام” یا ”وائی ایل اے آئی” نامی اس پروگرام سے فارغ التحصیل ہونے والے مارکو مینڈیٹا کے ذہن کی اختراع تھا۔ ”وائی ایل اے آئی” تعلیمی تبادلے کا پروگرام ہے جو لاطینی امریکہ کے لوگوں کو کاروباری صلاحیتوں کے حصول میں مدد دیتا ہے۔” مشن مانابی ”کو اب ”مشن ایکواڈور” کے نام سے جانا جاتا ہے جو پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ مینڈیٹا نے امریکہ میں ”وائی ایل اے آئی” سے جو کچھ سیکھا تھا یہ اسی کا اظہار ہے۔ ایکواڈور میں امریکی سفارت خانہ اس مشن کی معاونت کرتا ہے۔
زلزلے کے ایک سال سے زیادہ عرصے کے گزرنے کے بعد جولائی 2017 میں جب مارٹیلو نے” مشن مانابی” کے لیے درخواست دی تو وہ اپنے پھیلتے ہوئے کاروبار میں بہت سارے کام کرتے کرتے تھک چکی تھیں۔ پانچ لوگ ہی یہ کام چلا رہے تھے جن میں وہ خود، ان کے خاوند، ان کی بیٹی اور دو جز وقتی کارکن شامل تھے۔

کام کو تقسیم کرنے کے بجائے مارٹیلو نے خرید و فروخت، حساب کتاب، وصولیوں، مارکیٹنگ اور کچے کیلے کو پیک کرنے کا کام بھی اپنے ذمے لے رکھا تھا۔ وہ تین سے زیادہ گھنٹے کی مسافت پر گوایا کیل میں خوانچہ فروشوں، اور خریداری کے مراکز پر اپنے چپس بھی پہنچاتی تھیں۔
ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود کمپنی کی سالانہ فروخت صرف 40 ہزار ڈالر تھی۔
تاہم اکتوبر 2017 میں انہوں نے” مشن مانابی” میں شمولیت اختیار کی اور فروخت کے نئے طریقوں، دوسروں کو ذمے داریاں تفویض کرنے اور چھوٹے کاروباری قرضے حاصل کرنے کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ (اس پروگرام کی بدولت انہیں ایک لاکھ ڈالر کے چھوٹے قرضے کے لیے درخواست دینے کا حوصلہ ملا جس سے انہیں اپنے علاقے میں کھانے کی اشیا تیار کرنے کا نیا پلانٹ لگانے میں مدد ملی۔ یہ اس چھپر سے بہت بہتر ہے جہاں سے انہوں نے کاروبار کا آغاز کیا تھا۔)
2018 میں مارٹیلو نے پیداوار اور اس کی ترسیل میں اضافہ کیا جس سے ان کی سالانہ آمدن میں تین گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا۔ آج مقامی تقسیم کار اور سپر مارکیٹ کا ایک بڑا کاروباری سلسلہ ملک بھر میں ان کے چپس فروخت کرتے ہیں۔
آئندہ اقدامات
مارٹیلو کہتی ہیں ”برے حالات میں آگے بڑھنا اور کچھ کرنے کی نئی راہیں نکالنا ممکن ہوتا ہے۔ میں نے ممکنات پر یقین کرنا اور اس کے لیے اپنے اہداف بنانا اور منصوبے کی تیاری سیکھی۔”
مارٹیلو نے ”مشن مانابی” کے تجربے کو مخصوص انداز میں اپنا کاروبار بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے اپنی پیداوار کی متعدد اقسام کی الگ الگ انداز میں پیکنگ شروع کی۔ انہوں نے ہنگامی ضرورت کے لیے رکھی جانے والی پیداوار کی مقدار میں اضافہ کیا تاکہ بوقت ضرورت اس کی ترسیل ممکن ہو سکے۔
چونکہ ان کا اندازہ ہے کہ ان کی 80 فیصد پیداوار برآمد ہو سکتی ہے اس لیے انہوں نے دنیا بھر میں نئی منڈیوں میں فروخت پر توجہ مرکوز کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ (وہ پہلے ہی امریکہ اور بیلجیم میں اپنی پیداوار بھجوا چکی ہیں۔)
ان کے کاروبار میں ترقی سے مقامی لوگ بھی خوشحال ہو رہے ہیں۔ مارٹیلو کہتی ہیں، ”کچے کیلے نے مجھے ناصرف اپنی بیٹیوں اور اہلخانہ بلکہ اپنے ارد گرد لوگوں کے لیے بھی عمدہ مستقبل تعمیر کرنے کی قوت اور ہمت دی ہے جنہیں ہمارے پیدا کردہ روزگار کے مواقع سے فائدہ پہنچتا ہے۔”
یہ مضمون فری لانس لکھاری لینور ٹی ایڈکنز نے تحریر کیا۔