امریکہ بہت سی شناختوں، زبانوں اور مذاہب کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔ یہ تنوع امریکی شناختوں کا بنیادی جزو ہے اور بہت سے لوگوں نے اپنی ثقافتوں کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی ہیں۔
کیرینہ گیئری ایک آبائی امریکی خاتون ہیں۔ گوکہ انہوں نے اپنے آبا و اجداد کی “مٹسون” نامی زبان کو محفوظ بنانے کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا مگر وہ کہتی ہیں کہ یہ کام کرتے ہوئے یوں محسوس ہوا جیسا میں اپنے قبیلے میں جا بیٹھی ہوں۔
گیئری کا شمار امریکہ میں بسنے والی اُن آبائی امریکی خواتین میں ہوتا ہے جو مطالعے، درس و تدریس اور اپنی مسلسل بقا کی وکالت کر کے اپنے قبیلے کی زبان کو زندہ رکھ رہی ہیں۔
گو کہ ان کی پرورش ایک آبائی امریکی کی طور پر ہوئی اور انہوں نے روائتی ثقافتی طور طریقوں کو اپنایا مگر گریئری کے مطابق “ایک چیز جو ہمیں ملی وہ (ہماری مادری) زبان تھی۔ زبان کا شناخت کے ساتھ قریبی تعلق ہوتا ہے۔”
کیرینہ گیئری کے بچے، جوناتھن کوسٹیلاس اور للیان کامارینا “مٹسون ریکا” نامی زبان سیکھنے کے دوران جملے بنانا سیکھ رہے ہیں۔ اس دوران وہ گیئری کے “بریتھ آف لائف انسٹی ٹیوٹ” میں تیار کردہ رنگوں کے استعمال سے وضح کیے گئے نظام سے مدد لیتے ہیں۔ (© Quirina Luna Geary)1996ء میں گیئری اور اُن کی بہن نے کیلی فورنیا یونیورسٹی، برکلے میں “کیلی فورنیا میں مقامی زبانوں کی بقا کے حامیوں” کی جانب سے منعقد کردہ ایک ورکشاپ میں شرکت کی۔
ورکشاپ کے دوران اپنی تحقیق میں انہیں معلوم ہوا کہ ان کی نکڑ دادی نے، جن کا 1920 کی دہائی میں انتقال ہوا، بیسویں صدی کے شروع میں ماہرین تعلیم کے ساتھ مل کر مٹسون زبان کو محفوظ بنانے کے لیے کام کیا تھا۔
گیری کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ زبان اور ثقافت کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے صحیح راہ پر گامزن تھیں۔ وہ کہتی ہیں، “ہمیں یقین نہیں آتا۔ اُن کا کام ہمارے لیے سونا ہے۔”
گئیر نے مٹسون زبان بولنے اور دستاویزی شکل میں اسے محفوظ کرنے کے لیے ایریزونا یونیورسٹی میں ایک ماہر تعلیم کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کیا۔ اُن کی شراکت داری دو دہائیوں پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں مٹسون-انگلش کی پہلی لغت مرتب کی گئی۔ گیئری نے مٹسون زبان میں بچوں کی کتابیں بھی شائع کیں ہیں۔

گیئری برسوں تک مٹسون قبیلے کی اولادوں کو مٹسون زبان سکھا رہی ہیں۔ 60 طلبا نے یہ زبان سیکھنے کے لیے اندراج کرایا ہے۔ اِن میں سے 15 باقاعدگی سے آتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر عورتیں ہیں اور وہ زبان سیکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “میں نے مٹسون زبان سیکھنے کو یقینی بنایا اور یہ کہ میں نے جو علم سیکھا ہے وہ میں دوسروں تک پہنچاؤں گی۔”
معدوم ہوتی زبانیں
اقوام متحدہ (پی ڈی ایف، 1.4 ایم بی) کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی کے آخر تک عالمی سطح پر 90 فیصد تک مقامی زبانیں ختم ہوجائیں گی اور 1900 سے لے کر اب تک 600 زبانیں ختم ہوچکی ہیں۔
امریکہ میں کئی ایک دیگر انگنت آبائی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ امریکہ سب لوگوں کے اپنی زبان اور ثقافت کو محفوظ رکھنے کے حقوق کی حمایت کرتا ہے۔

“نیشنل انڈین کونسل آن ایجنگ” (آبائی امریکیوں کی عمر رسیدگی کے بارے میں کونسل) کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی بھی زبان خطرے سے دوچار ہو جاتی ہے جس کے بولنے والی کی تعداد دس ہزار سے کم ہو جائے۔ اس وقت اماہا مٹسون قبیلے کے افراد کی تعداد 600 ہے۔
گیئری ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتاتی ہیں کہ مٹسون جیسی زبانوں کے سیکھنے سے لوگ ثقافت، مشترکہ تجربے اور ورثوں کے جشن منانے کے ذریعے آپس میں جڑتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں، “اس کا تعلق محض زبان بولنے سے ہی نہیں ہے۔ حقیقت میں اس کا شناخت کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ اس میں جب کوئی زبان پھلتی پھولتی ہے تو اس کے ساتھ قومیں پھلتی پھولتی ہیں اور اچھی چیزیں ہونے لگتی ہیں۔”