
بنکنگ کے شعبے میں اپنی ملازمت کے دوران تھیوبلیل اینلووو نے مردوں کی نسبت عورتوں کی قرض کی زیادہ درخواستیں مسترد ہوتے دیکھیں حالانکہ عورتوں کی مالی حیثیت مستحکم ہوتی تھی۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے مطابق افریقہ کے ذیلی صحارا کی لیبر مارکیٹ میں صنفی عدم مساوات نے براعظم کو 2010 اور 2014 کے درمیان پیداواری صلاحیت کے حوالے سے ہر سال تقریباً 95 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ یو این ڈی پی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ذیلی صحارا افریقہ میں مردوں کی نسبت خواتین کے مالیاتی سہولتوں اور قرض کے حصول تک رسائی حاصل کرنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
اینلووو نے افریقی عورتوں کی نئے کاروبار شروع کرنے کے لیے قرض تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ‘پرس آن پوائنٹ’ کے نام سے ایک کمپنی قائم کی۔ قرض کی عدم دستیابی کا شمار نیا کاروبار شروع کرنے میں پیش آنے والی بڑی بڑی مشکلات میں ہوتا ہے۔ یہ کمپنی خواتین کو کاروباری نظامت کاری، مالیاتی خواندگی، کاروبار اور جائیدادی منصوبہ بندی، اور کاروبار چلانے کا تحریری منصوبہ تیار کرنے کے ساتھ ساتھ بنکوں سے معاملات طے کرنے اور قرض حاصل کرنے کے طریقے سکھاتی ہے۔
اینلووو کہتی ہیں کہ “جب اِن عورتوں کو تربیت دی جاتی ہے تو وہ قرض حاصل کرنے کی اہل قرار پاتی ہیں۔ اینلووو کی کمپنی زمبابوے، جنوبی افریقہ، یوگنڈا اور روانڈا میں کام کرتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ “انہیں علم ہوتا ہے کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ وہ اپنے کاروباروں میں لوگوں کو ملازمتیں دیتی ہیں اور اُن کے کاروبار ترقی کرتے ہیں۔”
اپنی کمپنی پرس آن پوائنٹ بنانے سے قبل اینلووو زمبابوے میں کاروباری نظامت کار خواتین کی امریکی اکیڈمی (اے ڈبلیو ای) نامی پروگرام میں سہولت کار کے طور پر کام کرتی تھیں۔ وہ اپنا کاروبار امریکی محکہ خارجہ کے اسی پرگرام کی طرز پر چلا رہی ہیں۔

اے ڈبلیو ای کے تحت تقریباً 100 ممالک میں تقریباً 25,000 خواتین کو نیا کاروبار شروع کرنے یا موجودہ کاروبار کو پھیلانے کے لیے تعلیم، نیٹ ورکس اور رسائی کی سہولتیں فراہم کی جا چکی ہیں۔ زمبابوے میں اے ڈبلیو ای پروگرام 2019 میں شروع کیا گیا اور اس سے زمبابوے میں 250 سے زائد کاروباری نظامت کار خواتین نے فائدہ اٹھایا۔
اینلووو محکمہ خارجہ کے تبادلے کے منڈیلا واشنگٹن فیلوشپ نامی پروگرام میں شرکت کرچکی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ “اے ڈبلیو ای میرے لیے ایک بہت ہی متاثر کن پروگرام تھا۔ جس طریقے سے اے ڈبلیو ای پروگرام ترتیب دیا گیا ہے اور عورتوں پر یہ جتنا زیادہ اثرانداز ہوتا ہے اُس نے اِس [پروگرام] کے نظاموں کو پرس آن پوائنٹ میں اپنانے کی [ترغیب دی]۔”
پرس آن پوائنٹ میں بالمشافہ تعلیم اور آن لائن تربیت کو ملایا جاتا ہے اور صنفی معاملات اور عدم مساوات جیسے افریقی خواتین کو درپیش چیلنجوں کے حل تلاش کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔
عطیات دہندگان اور سرمایہ کاروں کی طرف سے کی جانے والی فنڈنگ کی وجہ سے شرکاء کو یہ پروگرام مفت پڑہایا جاتا ہے۔ محکمہ خارجہ کی ایک گرانٹ سے اینلووو کو اپنا کاروبار شروع کرنے میں مدد ملی۔
تین سالوں میں پرس آن پوائنٹ سے 5,000 خواتین فائدہ اٹھا چکی ہیں۔ زمبابوے کے شہر بلاویو سے تعلق رکھنے والی اے ڈبلیو ای پروگرام میں شرکت کرنے والی ایک خاتون نے قانون کی ایک فرم بنائی اور مکینک ورکشاپ کھولی جبکہ بعض خواتین نے اشاعت، مویشی پالنے اور بائیو ٹیکنالوجی جیسی صنعتوں میں کاروبار شروع کیے۔
اینلووو نے بتایا کہ “پرس آن پوائنٹ میں [تربیت] کے بعد انہیں اپنی قدر و قیمت کا اندازہ ہو جاتا ہے، [عورتوں] کو پتہ چل جاتا ہے کہ وہ کیا کر سکتی ہیں۔ وہ غیرمعمولی کامیابیاں حاصل کرتی جاتی ہیں اور بڑے بڑے کام کرنے لگتی ہیں۔”
یہ مضمون فری لانس لکھاری رونی کین نے تحریر کیا۔ محکمہ خارجہ کا ثقافتی امور کا بیورو اس مضمون کو ایک مختلف شکل میں ایک بار پہلے شائع کر چکا ہے۔