ایک ایشیائی امریکی کی سلیکون ویلی میں کامیابی کی داستان

Artist's rendition of computer processor chip on circuit board (© Shutterstock)
(© Shutterstock)

جب ڈیوڈ لیم نے میسا چوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں کیمیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ مکمل کی اور وہ تدریسی پیشہ اختیار کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ ان کے مشیر نے انہیں چار الفاظ پر مشتمل یہ نصیحت کی: “حقیقی نوکری حاصل کرو۔”

چین میں پیدا ہونے اور ویت نام میں پرورش پانے والے لیم نے تدریسی شعبے کو خیرباد کہہ دیا۔ پہلے انہوں نے بڑی صنعتوں کے لیے سائنس دان کے طور پر کام کیا اور پھر ایک جدید پلازما مشین کے ذریعے کمپیوٹر چپس بنانے کا اپنا کاروبار شروع کیا۔

‘لیم ریسرچ’ نامی اُن کی کمپنی نے ابتدائی مالیاتی مسائل پر قابو پایا، پھر سیل [بِکری] میں اضافہ کیا۔ اس طرح اُن کی ایک ایشیائی امریکی کی ملکیتی کمپنی،  ‘نیسڈک’ سٹاک ایکسچینج  پر رجسٹرہونے والی پہلی کمپنی بن گئی۔ لیم نے کام مزید آگے بڑھایا تو اس کمپنی نے ‘فارچون 500’ میں جگہ بنا لی۔ ( فارچون  نامی رسالہ بڑے امریکی کاروباروں کی آمدنی، منافعے اور دیگر اشاریوں کی بنیاد پر درجہ بندی کرتا ہے۔)

Portrait photo of David K. Lam (Courtesy of David K. Lam)
ڈیوڈ کے لیم (Courtesy photo)

73 سالہ لیم اب ‘ملٹی بیم کارپوریشن’ کے چیئرمین ہیں۔ انہوں نے شروع کیے جانے والے بہت سے نئے کاروباروں کی مدد کی ہے اور ایک  ایسے ‘سرمایہ دار سرپرست’ بن گئے ہیں جو دوسروں کو یہ بتاتے ہیں کہ تصورات کو حقیقی کاروبار میں کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

جب وہ چھوٹے تھے تو  ویت نام میں ان کے  والد کے دو کاروبار ناکامی سے دوچار ہوئے جس کے بعد انہوں  نے جنوب مشرقی ایشیا میں “پائلٹ نامی فاؤنٹین پین” کے بلاشرکت غیرے تقسیم کار کے طور پر کامیابی حاصل کی۔ اسی مشاہدے کی بنا پر لیم نے کاروباری سوجھ بوجھ  پائی۔

لیم نے آج کل ہو چی من سٹی کہلانے والے شہر سائیگون کے قریب پرورش پائی اور ہانگ کانگ میں تعلیم حاصل کی۔ وہ کہتے ہیں، “میں نے والد سے گفتگو اور گھر میں چھوٹی موٹی چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے کاروباری نظامت کاری سیکھی۔”

ان کے والدین نے ہرممکن حد تک تعلیم  حاصل کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ وہ کہتے ہیں، “مجھے یاد ہے کہ میرے والد نے کہا کہ میں جب دنیا چھوڑوں گا تو تمہارے لیے زیادہ کچھ چھوڑ کر نہیں جاؤں گا، تاہم تم جو علم حاصل کرو گے وہ ہمیشہ تمہارے ساتھ  رہے گا۔”

جب لیم انگریزی زبان سیکھ  رہے تھے تو اُن کو کالج میں انگریزی پڑھتے ہوئے شیکسپیئر کو سمجھنے میں خاصی دقت پیش آرہی تھی۔ تاہم انہوں نے ادب کی لازمی جماعت پاس کرنے کا ایک نیا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ انہوں نے فائنل امتحان میں ممکنہ طور پر پوچھے جانے والے سوالات کا پہلے سے درست اندازہ لگایا، ان کے ذہین جوابات لکھے اور انہیں زبانی یاد کر لیا۔

زبانی یاد کرنے سے انہیں جواب دینے کا وقت مل گیا کیونکہ اگر انہیں موقع پر الفاظ ڈھونڈنا پڑتے تو یہ وقت نہ ملتا۔ وہ اس بات کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، “پروفیسر نے مجھے 60 نمبر دیے جو صرف پاس ہونے کے لیے کافی تھے اور ان میں سے نصف سے زیادہ نمبر ہمدردی کی بنیاد  پر مجھے دیئے گئے تھے۔”

سائنس اور ریاضی میں اے گریڈ لینے پر لیم کو میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں داخلہ مل گیا اور انہوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

انہوں نے ‘ہیولٹ پیکارڈ’ کمپنی میں جونیئر مینجر کی نوکری نظرانداز کرتے ہوئے اور رات کے وقت ایک کمیونٹی کالج میں اکاؤنٹنگ اور بزنس کی کلاسوں میں پڑھائی شروع کر دی تاکہ کمپنی چلانے کی بنیادی مہارتیں سیکھ سکیں۔

اُن دنوں ‘سلیکون ویلی’ میں ترقی اپنے ابتدائی مراحل میں تھی اور وہاں لیم جیسے کاروباری منتظمین کے لیے بھرپور مواقع موجود تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘سلیکون ویلی میں لوگ ناکامی کو قبول کرتے ہیں اور آپ پر دوبارہ سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ یہ بات امریکی معاشرے میں ہی پائی جاتی ہے جہاں تارکین وطن کو بھی اچھے مواقع ملتے ہیں۔ تاہم یہ  ضروری نہیں کہ ہر جگہ ایسا ہی ہو۔ میرے ذہن میں ہمیشہ یہ خیال رہا کہ مجھے ذرا زیادہ سخت محنت کرنا ہوگی۔”