ایک خاتون سائنسدان کے افریقی خواتین کے ساتھ سٹیم کے بندھن

Dr. Teresa Williams (center) (State Dept./D.A. Peterson)
ٹریسا ولیمز (درمیان) امریکہ کے سفارتی مرکز میں حال ہی میں ہونے والی ایک تقریب میں شریک ہیں۔ اُن کے ساتھ مرکز کی ڈائریکٹر میری کین (دائیں) اور تعلیمی اور ثقافتی امور کے بیورو کی اسسٹنٹ سیکرٹری میری رائس بھی موجود ہیں۔ (State Dept./D.A. Peterson)

ٹریسا ولیمز بچپن  ہی سے ریاضی میں لائق تھیں۔ مگر انہوں نے اس وقت تک اس شعبے میں کسی پیشے کے بارے میں سوچا تک نہیں تھا جب تک انہوں نے ایک کیمونٹی کالج میں کیمسٹری کی کلاس نہیں لی تھی اور اس دوران عورتوں کو سائنس کے شعبے میں کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔

اُن کی ٹیچر نے اُن میں شوق پیدا کیا۔ آج ولیمز ایک نینو سائنسدان بن چکی ہیں اور اُن کے پاس کینسر پر تحقیق کرنے کے پیٹنٹ موجود ہیں۔ ولیمز کہتی ہیں، ” اُس [ٹیچر] میں مجھے اپنا آپ دکھائی دیا۔”

جب ولیمز تجربہ گاہ میں نہیں ہوتیں تو وہ مخففاً سٹیم کہلانے والے سائنس، ٹکنالوجی، انجنیئرنگ اور ریاضی کے مضامین میں ورتوں اور لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کی پرزور حمایت میں دنیا بھر کا سفر کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں محکمہ خارجہ کے ایک پروگرام کے تحت اُن کے حالیہ بیرونی دوروں میں  مصر اور کینیا شامل تھے۔

ٹوئٹر کی عبارت کا ترجمہ: “ہمارے پاس جو اہم ترین وسیلہ ہے  وہ  یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے ہیں۔”

کیلی فورنیا کی مشہور لارنس برکلے قومی تجربہ گاہ میں کیمسٹری کی محقحق کے طور پر اپنے کام کے دوران وہ کینیا، جنبوبی افریقہ اور تیونس سے تعلق رکھنے والی سائنسدانوں کی میزبانی کر چکی ییں۔

سائنس کی وجہ سے عورتیں ایک بندھن میں بندھ گئیں۔ انہوں نے تجربات کی منصوبہ بندی کی، تجربہ گاہ میں شانہ بشانہ کام کیا، اور ایک دوسری کو سنائی گئی کہانیوں کے ذریعے اعتماد حاصل کیا۔

ولیمز نے اس موضوع پر امریکہ کے سفارتی مرکز میں ناسا کے اہل کاروں اور دیگر خواتین سائنسدانوں کی موجودگی میں ایک پینل کے مباحثے میں کہا، “تجربات میں اتنا زیادہ مشترکہ پن اور  بہن پنا تھا کہ ہم سب نے ایک دوسرے کو سٹیم میں عورتوں کی حیثیت سے اپنی تعلیم اور پیشہ ورانہ زندگی کی کہانیاں سنائیں۔”

بہت سی عورتوں کی طرح ولیمز کو بھی اپنی تعلیم اور پیشہ ورانہ زندگی اور ذاتی تعلقات میں سے ایک کا انتخاب کرنے کی مشکل صورت حال میں ڈالا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں مردانہ اکثریت کے شعبے سٹیم میں، صنفی بنیادوں پر امتیازی سلوک کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

اِن تمام مشکلات کے باوجود ایک محقق کی حیثیت سے اپنی 17 سالہ پیشہ ورانہ زندگی میں ولیمز نے بیرونی ممالک میں اپنا کام پیش کیا اور 23 ایسی مطبوعات تحریر کیں جن کا تنقیدی جائزہ اُن کی ساتھی سائنس دانوں نے لیا۔

آج کل وہ امریکہ کی کانگریس کی ایک سالہ فیلو شپ پر ہیں جو کہ سائنس کی ترویج کی امریکی ایسوسی ایشن نے انہیں پیش کی ہے۔ سائنس اور انجنیئرنگ پر کانگریس کی ایک فیلو کی حیثیت سے وہ امریکہ کی سائنسی پالیسی کے بارے میں معلومات حاصل کر رہی ہیں اور قانونی مسودے کی تیاری میں مدد کر رہی ہیں۔

اُن کی نصیحت یہ ہے، “متجسس رہیں …  اپنی سوچ بدلنا کوئی بری بات نہیں۔”

یہ مضمون فری لانس مصنفہ لینور ٹی ایڈکنز نے تحریر کیا۔