ایک سال بعد: یوکرین کی لچک کی کہانیاں

جب فروری 2022 میں روس نے یوکرین پر اپنے مکمل حملے کا آغاز کیا تو چھوٹوں بڑوں سب نے اپنے ملک کی حفاظت کرنے اور اگلے محاذوں پر ملک کا دفاع کرنے والے فوجیوں کی مدد کرنے کے لیے اپنے اپنے حصے کا کام کرنے کے طریقے تلاش کرنے شروع کردیئے۔ اس سوال کا جواب بڑا واضح تھا کہ وہ اپنے ہم وطن یوکرینیوں اور دنیا کو اپنی منفرد مہارتیں پیش کرنا جاری رکھیں۔

کیئف کے ایک 20 سالہ طالبعلم نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ یوکرین کے عوام “مشترکہ فتح کے لیے کام کر رہے ہیں۔”

یوکرین کے عوام کی لچک دنیا کے لیے ایک طاقتور اور متاثر کن مثال بن چکی ہے۔ اِس حوالے سے ذیل میں اُن کی چند ایک کہانیاں بیان کی جا رہی ہیں:-

میدان میں نکلنا

اولینا گریکووا میز پر رکھے ان سلے کپڑے پر کام کر رہی ہیں (© Francisco Seco/AP)
(© Francisco Seco/AP)

جنگ سے پہلے اولینا گریکووا جدید قسم کے ‘بیک لیس’ لباس ڈیزائن  کیا کرتی تھیں۔ جیسا کہ اوپر تصویر میں دکھائی دے رہا ہے آج کل وہ زاپوریژیا میں دیگر رضاکاروں کے ساتھ مل کر یوکرینی فوجیوں کے لیے حفاظتی جیکٹیں بناتی ہیں۔

جب روسی افواج نے 2022 میں یوکرین پر حملہ کیا تواس وقت گریکووا تھائی لینڈ میں تھیں اور موسم بہار کے اپنے نئے ڈیزائنوں کے لیے کپڑوں کے نمونے دیکھ رہی تھیں۔ وہ اپنے حصے کا کام کرنے کے لیے فوری طور پر یوکرین لوٹیں۔ گریکووا نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ “مجھے احساس ہوا کہ میری یہاں ضرورت ہے۔”

ویلڈر ایک فیکٹری میں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے والے چولھے بنا رہے ہیں (© Francisco Seco/AP)
(© Francisco Seco/AP)

زاپوریژیا میں ہی دیگر مقامات پر رضاکار یوکرینی فوجیوں کے استعمال کی چیزیں بنا رہے ہیں جن میں بندوقوں کو کندھے سے لٹکانے والے پٹوں سے لے کر کیموفلاج کے جال اور اوپر تصویر میں دکھائی دینے والے سردی سے بچنے کے لیے چولھے تک شامل ہیں۔

جنگ سے پہلے فرنیچر سازی کا کاروبار چلانے والے ہینیڈی ووچینکو آج کل جنگی محاذوں پر استعمال ہونے والی اشیاء بنانے کے لیے رضاکاروں کو منظم کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ “میرا فوج سے قطعی طور پر کوئی تعلق نہیں تھا۔ مجھے یہ سمجھنے میں دو دن اور تین بے خواب راتیں لگیں کہ کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔”

امیدوں کے تار

سیاہ لباس پہنے ویرا لائتووچینکو تہہ خانے میں وائلن بجا رہی ہیں (© Instagram/@veralytovchenko/Reuters)
(© Instagram/@veralytovchenko/Reuters)

جب حملوں کا آغاز ہوا تو اوپر تصویر میں دکھائی دینے والیں وائلن نواز، ویرا لائتووچینکو اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ خارکیف شہر کی ایک عمارت کے تہہ خانے میں پناہ لیے ہوئے تھیں۔ اس دوران انہوں نے ویڈیوز ریکارڈ کرکے آن لائن پوسٹ کرنا شروع کر دیں۔

پھر لائتووچینکو نے موسیقی کے ذریعے جنگ کے لیے پیسے جمع کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کیٹی کورِک میڈیا کو بتایا کہ “میں جنگ نہیں روک سکتی۔ میں ڈاکٹر نہیں ہوں۔ میں فوجی سپاہی نہیں ہوں۔ میں کیا کر سکتی ہوں؟ مجھے یہ احساس ہوا کہ میں یہ کر سکتی ہوں کہ وائلن بجاؤں۔” اُن کی پوسٹیں ہزاروں افراد کی توجہ کا مرکز بن چکی ہیں۔

زیرزمین ریل کے سٹیشن کے کنسرٹ ہال کی دیوار کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کی تصویر پر چسپاں ویرا لائتووچینکو کا قول (State Dept./M. Gregory. Photo: © Efrem Lukatsky/AP)
(State Dept./M. Gregory. Photo: © Efrem Lukatsky/AP)

فاصلے کم کرنے

روسی فوجیں 320 سے زائد پلوں کو تباہ کر چکی ہیں۔ مقامی لوگوں نے محسوس کیا کہ اپنے خاندانوں اور پڑوسیوں تک اشیاء پہنچانے کے لیے انہیں کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈنا پڑے گا۔

ستاوری سالتیو میں دریائے سائیورسکی ڈون یٹس پر بنے پل کو جنگ میں شدید نقصان پہنچا۔ نیچے تصویر میں درمیان میں دکھائی دینے والے یوری شاپا والف نے اس کا ایک حل نکالا اور اب وہ لگ بھگ روزانہ کی بنیاد پر سامان سے بھری  کشتی میں اپنے پڑوسیوں کی دریا عبور کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

کشتی پر بیٹھا ایک آدمی ایک دوسرے آدمی کو امدادی اشیاء دے رہا ہے (© Francisco Seco/AP)
(© Francisco Seco/AP)

اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن

نوجوان یوکرینی ڈانسروں نے ‘لائٹ بیلنس کڈز‘ کے نام سے ایک ڈانس گروپ بنا رکھا ہے جو اس امر کا عملی مظاہرہ کرتا ہے کہ تفریح دنیا بھر کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لا سکتی ہے۔ اس گروپ نے 2 جنوری کو ٹیلی ویژن پروگرام America’s Got Talent: All-Stars [امریکہ میں ذہانت: آل سٹارز] میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

انہوں نے اندھیرے میں ویڈیو گیم کے کرداروں سے مشابہت رکھنے والے روشن کپڑے پہن کر ڈانس کیا۔ یوکرین کے قومی رنگوں کا استعمال کرتے ہوئے اس ڈانس کا اختتام ایک قلعے، ترشول اور قومی پرچم کے سامنے ہوا۔

17 سالہ ڈانسر ماریا ہونیکووا نے کہا کہ “ہم امریکہ اور پوری دنیا کو بتانا چاہتے تھے کہ یوکرین میں کیا ہو رہا ہے۔ ماریا ہونیکووا کے چچا یہ جنگ لڑتے ہوئے مارے جا چکے ہیں۔ ہم سامعین کو یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ جیت ہمیشہ روشنی کی ہوتی ہے۔”