نومبر میں جاری کی جانے والی 2019 کی نیٹ کی آزادی کی رپورٹ کے مطابق چینی حکومت انٹرنیٹ کی آزادی کو پامال کرنے والی بدستور بدترین حکومت بنی ہوئی ہے۔ اس کی ظالمانہ سنسرشپ، چین سے باہر بھی لوگوں کی ایک روزافزوں تعداد کو متاثر کر رہی ہے۔

دنیا بھر میں آزادی اور جمہوریت کے پھیلاؤ کے لیے وقف، ایک آزاد نگران تنظیم فریڈم ہاؤس نے مسلسل چوتھے سال بیجنگ کی حکومت کو سب سے زیادہ کنٹرول رکھنے والی، سب سے زیادہ جبر کرنے والی اور سب سے کم آزاد انٹرنیٹ والی حکومت قرار دیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے، “نیٹ کی آزادی پر(جب سے اس) رپورٹ کا اجرا شروع ہوا ہے اس کے بعد سے چین میں انٹرنیٹ کی آزادی بھی آج پست ترین سطح پر آ گئی ہے۔ جب حکومت نے معلومات پر اپنی گرفتوں میں اضافہ کیا تو سنسرشپ اور نگرانی اُن انتہاؤں پر پہنچ گئے جن کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔”

چینی حکومت اختلاف رائے کو روکنے اور اپنے عوام پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے انٹرنیت کوسنسر کرتی ہے۔ (امریکی) محکمہ خارجہ نے 2018ء کی ایک رپورٹ میں تخمینہ لگایا کہ بیجنگ نے الیکٹرانک مواصلات اور آن لائن مواد پر نظر رکھنے کے لیے دسیوں ہزاروں لوگوں کو ملازم رکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی احکامات کے تحت انٹرنیٹ کی نجی کمپنیوں نے بھی ہزاروں افراد کو صارفین کی کڑی نگرانی کے کام پرلگا رکھا ہے۔

فریڈم ہاؤس میں عوامی حمایت کے حصول کی ڈائریکٹر، اینی بویاجیان نے کہا، “چین کی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کی انٹرنیٹ کی آزادی کی خلاف ورزیوں اس امرکا واضح ثبوت ہیں کہ سی سی پی کے اہلکاروں کو اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کی نسبت اقتدار پر اپنی گرفت قائم رکھنے کی زیادہ پرواہ ہے۔”

اس رپورٹ میں جن 65 ممالک کا سروے کیا گیا امریکہ اُن میں برطانیہ اور آسٹریلیا کے ہمراہ پانچویں نمبر پر ہے۔ چین سب سے آخر یعنی 65ویں نمبر پر ہے۔

ٹوئٹر کی عبارت کا خلاصہ

محکمہ خارجہ: چین کا شمار 800 ملین انٹرنیٹ صارفین کے ساتھ دنیا میں انٹرنیٹ کی متحرک ترین آبادیوں میں ہوتا ہے۔ تاہم چینی شہری جو کچھ آن لائن دیکھتے ہیں وہ چینی حکومت کی انٹرنیٹ کی ظالمانہ سنسر شپ کے تحت محدود کیا جاتا ہے اور کنٹرول کیا جاتا ہے۔

 بیرونِ ملک سنسرشپ

بیجنگ کی سنسر شپ، چین سے باہر بھی لوگوں کو متاثر کیے ہوئے ہے کیونکہ پوری دنیا میں استعمال ہونے والے ‘ ایپس’ تیار کرنے والی ٹکنالوجی کی چینی کمپنیاں چینی کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر ہیں۔

بویاجیان نے کہا، “چینی حکومت نہ صرف چین کی سرحدوں کے اندر انٹرنیٹ کی رسائی پر پابندیاں لگاتی ہے، انٹرنیٹ کے صارفین پر نظر رکھتی ہے اور پراپیگنڈہ پھیلاتی ہے بلکہ یہ حکومت چین سے باہر بھی ڈیجیٹل آمریت کی کوششوں میں تیزی لا رہی ہے۔”

چین میں سوشل نیٹ ورک کا ‘وی چیٹ’ نامی ایپ سب سے زیادہ مقبول ہے اور پوری دنیا میں پھیلے چینی بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ چین سے باہر رہنے والے بہت سے لوگ یہ جان کر ہکا بکا رہ گئے کہ ظاہری طور پر حکومت جو کچھ وہ کہہ سکتے ہیں اور جو کچھ وہ نہیں کہہ سکتے اس سب کی نگرانی کرتی اور سنسر کرتی ہے۔ مثال کےطور پر:

فریڈم ہاؤس کی ایک محقق، سارا کک نے نیشنل پبلک ریڈیوں کو بتایا کہ اگر چین سے باہر کوئی صارف “کسی ایسے شخص سے بات کر رہا ہے جو چین سے باہر ہے اور وی چیٹ استعمال کر رہا ہے تو اُن پر پھر بھی لگ بھگ وہی قوانین لاگو ہونگے جو چین کے اندر لاگو ہوتے ہیں۔”

ایک اور مقبول چینی ایپ ٹک ٹوک ہے۔ نیو جرسی میں دس بارہ سال کے بچے کا اکاؤنٹ اس وقت معطل کر دیا گیا جب اس نے ٹک ٹوک پر چینی حکومت کے ہاتھوں ویغوروں کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کی ایک وڈیو اپ لوڈ کی۔ ٹک ٹوک نے اس بات سے انکار کیا کہ معطلی کا تعلق وڈیو سے ہے۔ تاہم، گارڈین کی جانب سے پیش کی جانے والی دستاویزات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ٹک ٹوک ایسے موضوعات کو سنسر کرنے کی اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے جن پر چینی حکومت اعتراض کرتی ہے۔

انٹرنیٹ سنسرشپ اور آن لائن جبر ایک ایسے وقت میں خصوصی اہمیت اختیار کر گیا ہے جب چین فائیو جی نیٹ ورکوں کے ذریعے دنیا کو مستقبل کا موبائل انٹریٹ فروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وزیر خارجہ مائیک آر پومپو نے 2 دسمبر کو کہا، “چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) چین میں صدر دفتر رکھنے والے فائیو جی کے کسی بھی سپلائر کو خفیہ طور پر ڈیٹا اُس کے حوالے کرنے اور دیگر کاروائیاں کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔”