
پاناما میں ایک مشیر کے طور پر کام کرتے ہوئے، یالیز گومیز کچرے کو زمین میں دباتے ہوئے اور جلاتے ہوئے اکثر دیکھا کرتی تھیں۔
ماحولیاتی امور سے متعلق مشیر کی حیثیت سے کام کرنے والی گومیز کو علم تھا کہ ان طریقوں سے کچرے سے چھٹکارا پانے سے پانی اور ہوا دونوں آلودہ ہوجاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کئی ایک لحاظ سے پاناما کڑے ماحولیاتی معیارات پر پورا اترتا ہے۔ مگر ملک میں نامیاتی کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے مناسب طریقے نہیں تھے۔
اس مسئلے نے گومیز میں جیو ایزل کے نام سے ایک نئی کمپنی کھولنے کی تحریک پیدا کی۔ یہ کمپنی ضمانت پر رہا کیے گئے قیدیوں کو کھانے کو ری سائکل کرنے اور اسے دیسی کھاد اور درختوں کی شاخوں کو چھوٹا چھوٹا کاٹ کر ملچ میں تبدیل کرنے کی ملازمتیں دیتی ہے اور اپنا تیار شدہ مال باغبانوں کو بیچتی ہے۔ گومیز کہتی ہیں، “آج پاناما میں واحد ہماری کمپنی ہے جو نامیاتی کوڑے کرکٹ کو ری سائکل کرتی ہے۔”

30 سالہ گومیز نے 2017ء میں امریکہ کے WEAmericas Initiative ( وی امیریکاز پروگرام) سے گریجوایشن کرنے کے بعد گزشتہ برس جیو ایزل کی بنیاد رکھی۔ 2012ء میں شروع کیے جانے والے اس پروگرام کے تحت انتظام کاری، نیٹ ورکنگ اور قیادت کے شعبوں میں خواتین نظامت کاروں کو تربیت میں مدد فراہم کی جاتی ہے۔
جیوایزل کا کاروبار گومیز کی ایک سابقہ قیدی فرینکلن ائیون کے ساتھ کی جانے والی شراکت ہے۔ ائیون نے پانچ برس قبل جیل کا ری سائکلنگ سے متعلق ایک پروگرام شروع کیا تھا۔ ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی اس پروگرام کو اس بات کا اعزاز دیتی ہے کہ قیدیوں کی بحالی میں مدد کرتے ہوئے یہ پروگرام پاناما کی لا جویتا جیل کے اندر رہن سہن کے حالات کو بہتر بناتا ہے۔
اب جیو ایزل جیل سے مشروط طور پر رہا ہونے والے ایسے افراد کی رہائی کو جاری رکھنے کے لیے جیل سے باہر بحالی میں مدد کرتی ہے۔ جب کام کرنے والے یہ لوگ تجربہ حاصل کر رہے ہوتے ہیں تو کمپنی انہیں تنخواہ بھی دیتی ہے جس سے انہیں مستقبل میں ملازمت کے لیے درخواست دینے میں مدد ملتی ہے۔ گومیز کہتی ہیں، “وہ ہمارے ہاں کام شروع کرتے ہیں اور پھر بڑی کمپنیوں میں چلے جاتے ہیں۔”

ایک سال میں جیو ایزل ایک بڑی کمپنی بن چکی ہے اور آج اس میں 150 ملازم کام کرتے ہیں۔ وہ دیسی کھاد کے لیے کچرا اٹھاتے ہیں یا ملچ تیار کرنے کے لیے درختوں کی شاخوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے ہیں۔ اس دوران گومیز اپنی اُن انتظامی مہارتوں پر انحصار کرتی ہیں جو انہوں نے “وی امیریکاز” میں سیکھیں تھیں۔ انہوں نے کہا، “اس پروگرام نے مجھے دوسروں کو کام تفویض کرنا اور بجٹ بنانا سکھایا۔”
گومیز اب بھی ماحولیاتی مشیر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ (وہ کہتی ہیں کہ وی امیریکاز نے انہیں سکھایا کہ کاروباری نظامت کار ایک وقت میں کئی ایک پراجیکٹوں پر کام کرتے ہیں۔)
مقامی طور پر شروع کیے جانے والے نئے کاروباروں کی مدد کے لیے پاناما میں امریکہ کا سفارت خانہ کئی ایک پروگرام چلا رہا ہے۔ عالمی نظامت کاری کے ہفتے کے دوران گومیز نے حال ہی میں سفارت خانے میں منعقد کیے جانے والے ایک سیمینار میں شرکت کی۔ انہوں نے امریکہ کے نوجوان لیڈروں کے پروگرام میں بھی درخواست دے رکھی ہے۔ اس پروگرام کے تحت لاطینی امریکہ کے کاروباری نظامت کاروں کو امریکہ کے کاروباری اداروں میں تربیت کے لیے لایا جاتا ہے۔
مگر اُن میں اپنے کام سے متعلق پہلے ہی سے کامیابی کا احساس پایا جاتا ہے۔ گومیز کہتی ہیں، “درحقیقت میں اب یہ محسوس کرتی ہوں کہ میں عظیم ترین کامیابی حاصل کر رہی ہوں۔” قیدیوں کی زندگی کی تعمیرِ نو کر کے “میں پوری طرح مکمل ہوں کیونکہ میں نے نہ صرف ماحولیاتی پہلو کو پالیا ہے بلکہ سماجی پہلو کو بھی پا لیا ہے۔ “