ایک خاص نسل سے تعلق رکھنے والے اس ہرن کے سینگ قرونِ وسطیٰ میں یونی کارن کہلانے والے ایک افسانوی گھوڑے کے سینگوں کے طور پر فروخت کیے جاتے تھے۔ ہرنوں کی یہ نسل معدوم ہو گئی تھی، مگر اب افریقہ میں اس ہرن کی واپسی شروع ہوچکی ہے۔
خم دار سینگوں والے ہرن کے نام سے پکارا جانے والا یہ جانور گزشتہ 20 برسوں میں جنگلوں میں معدوم ہو جانے والا سب سے بڑا ممالیہ جانور ہے۔ گزشتہ سال اس نسل کے 25 ہرنوں کو چاڈ کے جنگلوں میں دوبارہ چھوڑا گیا۔ اس سال مارچ میں اِن ہرنوں کے گلے میں تین بچے پیدا ہوئے ہیں۔

بڑے اور خم دار سینگوں والے اس ریگستانی جانور کی پہچان اس کے لمبے اور خم دار سینگ ہیں۔ ایک زمانے میں مغرب میں موریطانیہ اور مراکش سے لے کر، مشرق میں مصر اور سوڈان تک کے علاقوں میں یہ ہرن گھوما کرتے تھے۔ ریوڑوں کی صورت میں گھومنے والا یہ جانور، 1980 کے عشرے میں اندھا دھند شکار، خشک سالی اور قدرتی ماحول سے محرومی کے باعث ناپید ہوگیا۔ تاہم آج اس نسل کے اندازاً 6,000 ہرنوں کو انسانی نگرانی میں مخصوص حالات میں پالا جار رہا ہے۔
جنگلات میں اس جانور کو دوبارہ لانا، ابو دہابی کے تحفظِ ماحول کے ادارے، ای اے ڈی اور چاڈ کی حکومت کے خم دار سینگوں والے ہرنوں کی بحالی کے پروگرام کے تحت کی جانے والی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
سمتھ سونین کنزرویشن بائیولوجی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر، سٹیو منفورٹ کا کہنا ہے، ’’جنگلات میں [اس] ہرن کی واپسی سے پورے ساحلی خطے کے سبزہ زاروں کے حیاتیاتی ماحول کے تحفظ اور اس کے بندوبست پر بہت بڑا اور مثبت اثر پڑے گا۔” وہ مارچ میں اس وقت چاڈ میں تھے، جب خم دار سینگوں والے ان ہرنوں کو بذریعہ طیارہ وہاں پہنچایا گیا تھا اور انہیں شکاریوں سے محفوظ علاقے، اوادی رائم – اوادی آشم میں منتقل کیا گیا تھا۔

ہرنوں کو جنگل میں آزاد کرنے سے پہلے، ہر ایک ہرن کے گلے میں ایک جی پی ایس سیٹلائیٹ کا پٹہ ڈالا جاتا ہے کہ امریکہ میں سمتھ سونین کنزرویشن بائیولوجی انسٹی ٹیوٹ اور زولاجیکل سوسائٹی آف لنڈن کے سائنس دان ان جانوروں کی نقل وحرکت پر نظر رکھ سکیں۔ چاڈ میں ای اے ڈی اور صحارا کنزرویشن فنڈ کے تربیت یافتہ رینجرز اس ریوڑ کی نگرانی کریں گے۔
صحارا کنزرویشن فنڈ کے چیف ایگزیکٹیو جان نیوبی کا کہنا ہے کہ منصوبہ یہ ہے کہ وہاں ہرنوں کی اس نسل کی نئی کھیپیں وقفوں وقفوں کے ساتھ باقاعدگی سے پہنچائی جائیں تا کہ “اگلے تین یا چار سالوں میں ان کی ایک تغیر پذیر آبادی کی بنیاد رکھ دی جائے۔”
’’ایک محتاط انداز میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحفظ کے اس پراجیکٹ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔‘‘
سمتھسونین انسٹی ٹیوشن، خم دار سینگوں والے اِن ہرنوں کی واپسی کو “ارتھ اوپٹمزم”یعنی زمین کے بارے میں پُراعتماد اُمید کے عنوان سے پیش کیے جانے والے پروگراموں میں دکھایا جا رہا ہے۔ یہ پروگرام 22 اپریل کو منائے جانے والے یومِ ارض کے سلسلے میں منعقد کیے جا رہے ہیں۔ یہ مضمون اس سے قبل 16 مئی 2016 کو شائع کیا جا چکا ہے۔