ایک کاروباری خاتون کی نظر میں آسٹرین مسلمان ہونے کے فائدے

نرمینا ممک ایک آسٹرین، ایک تارک وطن، ایک کاروباری نظامت کار، ایک مسلمان اور ایک معاشرتی لیڈر ہیں۔ مگر یہ لازمی نہیں کہ اُن کی عملی زندگی کی ترتیب [ہمارے بیان کے] مطابق ہی ہو۔

وہ اگلی نوجوان نسل کی قیادت کے پروگرام ( وائی ایل آئی) کی گریجوایٹ بھی ہیں۔ تبادلے کا یہ پروگرام آسٹریا میں امریکی سفارت خانے کی مالی معاونت سے چلایا جاتا ہے۔ وائی ایل آئی میں قائدانہ تربیت کو کمیونٹی کے ساتھ مل جل کر کام کرنے سے جوڑا جاتا ہے اور پناہ گزینوں اور تارکین وطن کے ساتھ کام کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ اس پروگرام کے سابقہ شرکائے کار اکثر اپنے ساتھ ہم آہنگی کے مسائل کے بارے میں نئے نئے نقطہائے نظر لے کر آتے ہیں۔

وائی ایل آئی میں تربیت کے دوران ممک نے قیادت کے ایک مختصر مگر بھرپور تربیتی پروگرام میں شرکت کی اور مزید تربیت کے لیے امریکہ بھی گئیں۔ امریکہ کی کئی ایک ریاستوں کے اپنے تین ہفتے کے سفر کے بارے میں انہوں نے کہا، ” لوگ مذہب کے بارے میں جس طرح کا رویہ رکھتے ہیں اور جس طرح یہ عوامی زندگی کا ایک اہم جزو ہے اس سے میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔”

بوسنیا میں پیدا ہونے والی اس تارک وطن کے لیے مذہب اہم ہے۔ وہ کہتی ہیں، “دیوانگی کی حد تک مصروف اور تیز رفتار اِس ماحول میں مذہب مجھے روحانی سکون اور قوت دیتا ہے۔”2010ء میں جب ممک انڈر گریجوایٹ طالبہ تھیں تو انہوں نے نوجوان آسٹرین مسلمانوں کی تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔ اس کی جزوی وجہ اس تنظیم کا یہ نظریہ تھا کہ مسلمان ہونا اور آسٹرین شہری ہونا ممکن ہے بلکہ فائدہ مندد بھی ہے۔

ڈائس اور اس پر لگے مائیکروفون کے پیچھے کھڑی ایک عورت۔ (© Muslim Youth)
نرمینا ممک۔ (© Muslim Youth)

ممک اب اس تنظیم کی سربراہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان مسلمان ہمارے معاشرے کے ساتھ مل کر کام کریں، ذمہ داری قبول کریں اور متحرک شہریت کی حوصلہ افزائی کریں۔”وہ مثال قائم کرکے قیادت کرتی ہیں۔ ویانا کی ایک یونیورسٹی سے ریاضی میں ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد، ممک نے مارکیٹ میں بکنے والا ایک تصور پیش کیا: یعنی ایک ایسا الگورتھم جو انٹرنیٹ موسیقی کی سٹریمنگ کرنے سے ہونے والی آمدنیوں میں پیش آنے والی رکاوٹوں کی نشاندہی کرے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے کسی کے ساتھ مل کر ‘لیگٹری’ نامی کمپنی کی بنیاد رکھی۔ لیگٹری نے مارکیٹنگ اور ڈیٹا/تجزیات کے شعبے میں جون 2019 میں مِڈم لیب کا اول انعام جیتا۔ ‘مِڈم لیب’ موسیقی کی صنعت کا ایک ادارہ ہے جو ہر سال موسیقی کی صنعت میں آنے والی نئی کمپنیوں کا ایک عالمی مقابلہ منعقد کرتا ہے۔

2018ء میں آسٹریا میں ہونے والی عوامی بحث کے ردعمل میں ممک نے امریکہ کے محکمہ خارجہ کی مالی مدد سے مسلمان کمیونٹی میں یہود دشمنی سے نمٹنے کے لیے ایک سالہ مہم کا آغاز کیا۔ آسٹریا میں اپنی نوعیت کی یہ اولین مہم تھی۔ اس پراجیکٹ پر انہوں نے امریکی سفارت خانے اور وائی ایل آئی کے سابقہ ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ اس سے اُن کی مسلمان اور آسٹرین دونوں حیثیتوں کے ساتھ لگاؤ کی عکاسی ہوتی ہے۔