ایک کاغذی کھلونا کیسے طبی معجزہ بنا

دیکھنے میں تو یہ محض کاغذ کی بنی ہوئی ایک پھِرکی ہے مگر 20 سینٹ کا یہ سادہ سا آلہ طب کے شعبے میں تبدیلی لا سکتا ہے۔

کیلی فورنیا میں سٹینفورڈ یونیورسٹی میں ریسرچ کرنے والوں نے ایک ایسا دستی ‘پیپر فیوج’ یعنی ‘کاغذ کا مرکز گریز آلہ ‘ تیار کیا ہے جو 90 سیکنڈ  میں خون کے سرخ خلیوں سے پلازمہ کو الگ کردیتا ہے۔ یہ آلہ اتنا ہی موثر ہے جتنی  کہ 5,000  ڈالر قیمتی مرکز گریز مشین ہوسکتی ہے۔

پیپر فیوج کی بنیاد ایک قدیم کھلونے، پِھرکی پر ہے، جس میں گول کاغذ کے وسط میں دو سوراخوں میں دھا گے لگے ہوئے ہوتے ہیں۔

یہ آلہ اس طرح کام کرتا ہے: طبی کارکن گھومنے والی پھِرکی پر خون سے بھری پلاسٹک کی باریک رگیں نصب کردیتے ہیں۔ اس کے بعد جب دھاگے کو دونوں سروں سے پکڑ کر کھینچتے ہیں تو پھِرکی  گھومنے لگتی ہے اور اس کی رفتار125,000 چکر فی منٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ گردشی قوت خون کے اُن اجزا کو الگ الگ کردیتی ہے، جن سے ملیریا ، تپدق،  نیند نہ آنے کی بیماری،  اور حتٰی کہ ایچ آئی وی کی بھی نشاندہی ہو جاتی ہے۔

بایو انجنیئر منو پرکاش نے بتایا، “جہاں تک مجھے معلوم ہے، یہ انسانی طاقت کے ذریعے  گھومنے والی سب سے تیز رفتار چیز ہے۔”  ان کا یہ ‘ آلہ’ بہت سے اعلیٰ معیار کے بجلی کے اُن سینٹری فیوجوں سے بھی زیدہ تیز رفتار ہے جو تقریباً 16,000 چکر فی منٹ کی رفتار سے گھومتے ہیں۔

پرکاش کہتے ہیں، “دنیا بھر میں ایسے ایک ارب سے زیادہ لوگ بستے ہیں جن کے ہاں بنیادی ڈھانچے، سڑک، بجلی کا کوئی وجود نہیں۔”  انہوں نے کہا، “میں نے محسوس کیا کہ اگر ہم ملیریا کی تشخیص جیسے کسی انتہائی اہم مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں انسانی طاقت سے چلنے والا کوئی ایسا سینٹری فیوج تیار کرنا ہوگا جس پر ایک کافی کی پیالی سے بھی کم لاگت آتی ہو۔”

مختلف ترکیبوں پر سوچ بچار کرتے ہوئے، سب سے پہلے پرکاش کے رفیقِ کار سعد بھملا نے بھارت میں اپنے بچپن کے زمانے کے گھومنے والے کھلونے کو یاد کرتے ہوئے اس کا ذکر کیا۔ جب انہوں نے تیز رفتار کیمروں کے ساتھ  ایسے کھلونوں کی آزمائش کی تو انہیں اسی وقت پتہ چل گیا کہ انہوں نے ایک کام کی چیز دریافت کرلی ہے۔

Manu Prakash seated (Linda A. Cicero/Stanford News Service)
منو پرکاش۔ (Linda A. Cicero/Stanford News Service)

لہذا پرکاش اور بھملا نے میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ  آف ٹیکنالوجی اور کیلی فورنیا میں سٹینفورڈ یونیورسٹی کے طلبا کو یہ کام سپرد کیا کہ وہ گھومنے والے ان کھلونوں کے امکانات کا جائزہ لینے میں مدد کریں اور بتائیں کہ ان سے کیا بنایا جاسکتا ہے۔

جہاں انہوں نے اس کھلونے میں “کوائل بنانے کی زبردست صلاحیت” کا پتہ چلایا — جس میں دونوں دھاگے بہت سختی کے ساتھ ایک دوسرے پر لپٹ کر فاضل توانائی کو ذخیرہ کرلیتے ہیں۔ پرکاش نے کہا ، “اس چیز میں ایک خوبصورت ریاضی پنہاں ہے۔”

ان کی ٹیم پہلے ہی 20 سینٹ کی اس ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کے لیے مڈ غاسکر میں طبی کارکنوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ بھملا کا خیال تھا کہ لوگ جب پہلی بار اسے دیکھیں گے تو اس پر ہنسیں گے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس ایک تجربہ کار تشخیصی ٹیکنیشیئن  نے انہیں قائل کر لیا۔ انہوں نے اس خاتون کے الفاظ  کو یاد کرتے ہوئے کہا، “آپ  اس چیز کو اس طرح نہیں سمجھتے جس طرح میں سمجھتی ہوں۔ میں برسوں سے ایسی ہی کسی چیز کی تلاش میں تھی۔”

7 اپریل صحت کا عالمی دن ہے۔ صحت کی دیگر نئی ٹیکنالجیوں اور   صحت کے شعبے میں عالمی کاروباری انتظام کاری کے آرزو مندوں کے لیے گُروں  کے بارے  میں جانیے۔