امریکہ کی قومی ٹیم کو 2015ء کے خواتین کے عالمی کپ کے فائنل میں جاپان کے خلاف نئی تاریخ رقم کرنے میں 16 منٹ لگے۔ ایسا اُس وقت ہوا جب امریکہ کی مِڈ فیلڈر (وسطی پوزیشن میں کھیلنے والی) کارلی لائیڈ نے عالمی کپ کی تاریخ میں تیز ترین ہیٹ ٹرِک یا تین گول کیے۔

اُن لوگوں کے لیے جو فُٹ بال میں دلچسپی رکھتے ہیں، امریکی ٹیم کا تیسری بار عالمی اعزاز حاصل کرنا غالباَ کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ لیکن شائقین کو ممکن ہے اِس کامیابی کے پیچھے موجود وجوہات میں سے ایک کا علم نہ ہو: وہ ہے شہری حقوق کی وہ تاریخی قانون سازی جس نے امریکہ کے سکولوں میں صنف کی بنیاد پر امتیازی سلوک پر پابندی۔

فُٹبال کی مایہ ناز کھلاڑی کارلی لائیڈ، امریکہ میں کھیلوں کوخواتین کے لیے زیادہ قابل دسترس بنانے کا اعزاز ٹائیٹل IX کو دیتی ہیں۔(© AP Images)

ٹائیٹل IX کے نام سے عام طور پر مشہور اِس قانون کے تحت ضروری ہے کہ وفاقی مالی امداد حاصل کرنے والے سکول، لڑکوں اور لڑکیوں کو کھیلوں میں شریک ہونے کے یکساں مواقعے فراہم کریں۔ کوچز، کھیلوں کی سہولتوں اور دیگر  وسائل تک یکساں رسائی کے حوالے سے بھی اُن کو مردانہ اور زنانہ ٹیموں کے ساتھ  برابری کا سلوک  کرنا ہوتا ہے۔

اِس قانون نے کھیلوں میں خواتین کی شمولیت پر بہُت بڑے اثرات مرتب کیے ہیں۔ جب 1972ء میں ٹائیٹل IX نافذالعمل ہوا تو امریکہ کے ثانوی سکولوں میں، 27 لڑکیوں میں سے لگ بھگ صرف ایک لڑکی کھیلوں میں حصہ لیتی تھی۔ اب یہ تناسب تین اور ایک کا ہے۔ خواتین کے لیے کالج کی کھیلوں کے مواقعوں میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔

“اگر ٹائیٹل IX نہ ہوتا تو میں نہ کھیل رہی ہوتی۔” اپنے ثانوی سکول اور بعد میں رٹگرز یونیورسٹی کے لیے فُٹ بال کھیلنے والی لائیڈ نے یہ بات اپنے مستقبل کے آغاز میں اخبار  فلاڈیلفیا انکوائرر کوبتائی۔

کھیلوں میں شرکت بہتر تعلیمی نتائج اور بڑھتے ہوئے اعتماد سمیت  کھیل کے میدان سے باہر دُور رس فوائد کی حامل ہوتی ہے۔ ایک حالیہ مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ 96 فیصد خواتین اعلٰی عہدیداروں نے سکول کے زمانے میں کھیلوں میں حصہ لیا۔