امریکی پیرالمپیئن اوکسانا ماسٹرز پر جب افتاد پڑی تو انہوں نے خود کو ازسرنو دریافت کیا۔
28 سالہ اس کھلاڑی کی دونوں ٹانگیں کٹی ہوئی ہیں۔ گزشتہ سرمائی اور گرمائی پیرالمپکس کھیلوں میں چاندی اور کانسی کے تمغے جیتنے کے بعد وہ جنوبی کوریا کے شہر پیانگ چانگ میں ہونے والے پیرالمپک سرمائی کھیلوں کے کراس کنٹری مقابلوں میں سونے کا تمغہ جیتنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
اوکسانا چرنوبیل کے حادثے کے تین سال بعد یوکرائن میں پیدا ہوئیں۔ وہ تابکاری اثرات کے سبب پیدائشی طور پر جسمانی معذوری کا شکار تھیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے پہلے سات برس ریاستی سرپرستی میں چلنے والے تین یتیم خانوں میں گزارے۔ 1997 میں ان کی منہ بولی والدہ، گے ماسٹرز انہیں امریکہ لے آئیں۔
کھیلوں نے انہیں خود کو نئی زندگی سے مطابقت پیدا کرنے میں مدد دی۔ 9 سال کی عمر میں ان کی بائیں ٹانگ جسم سے الگ کر دی گئی تھی تاہم اس کے باوجود انہوں نے والی بال کھیلا اور دیگر کھیلوں میں حصہ لیا۔ 14 سال کی عمر میں جب ڈاکٹروں نے ان کی دائیں ٹانگ بھی کاٹ دی تو انہوں نے معذوریوں کے حامل افراد کے لیے خصوصی قسم کی کشتی رانی کے ذریعے خود کو مصروف رکھا۔
اس طرح وہ کشتی رانی کی ایک مشہور کھلاڑی بن گئیں اور انہوں نے 2012 میں ہونے والے لندن پیرالمپک گرمائی کھیلوں کے کشتی رانی مقابلوں میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ تاہم اگلے ہی برس انہیں جنوبی کوریا کے شہر چنگ جو میں عالمی کشتی رانی چیمپیئن شپ کے دوران ایک تیز اور اذیت ناک درد نے آن گھیرا۔ ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ اگر انہوں نے کشتی رانی نہ چھوڑی تو ان کی ریڑھ کی ہڈی مستقل طور سے متاثر ہو سکتی ہے۔
وہ بتاتی ہیں، “اس وقت میں نے سوچا کہ کھلاڑی کے طور پر میری زندگی ختم ہو گئی ہے۔” تاہم اس کے فوراً بعد انہوں نے کراس کنٹری سکی انگ شروع کر دی کیونکہ اس میں بھی کشتی رانی جیسی ہی عضلاتی طاقت استعمال ہوتی ہے۔
کھیل میں واپسی
چودہ ماہ بعد 2014 میں انہوں نے روسی شہر سُوچی میں منعقدہ پیرالمپک سرمائی کھیلوں کے کراس کنٹری مقابلوں میں چاندی اور کانسی کے تمغے جیتے۔ 2016 میں ریو ڈی جنیرو میں ہونے والے گرمائی اولمپکس کے سائیکلنگ مقابلوں میں وہ تمغہ جیتتے جیتتے رہ گئیں۔ بنیادی طور پر انہوں نے یہ کھیل فارغ وقت میں خود کو چاک و چوبند رکھنے کے لیے شروع کیا تھا۔
اوکسانا ماسٹرز نے 2015 میں یوکرائنی شہر کی ایو میں امریکی سفارت خانے کی درخواست پر یوکرائن کا پہلا دورہ کیا۔ وہاں وہ ویسے ہی یتیم خانوں میں گئیں جہاں وہ خود بھی پلی بڑھی تھیں اور انہوں نے یوکرائنی فوج کے زخمی سپاہیوں سے ملاقاتیں کی۔
انہوں نے نمایاں کھلاڑیوں کے تذکروں پر مشتمل ایک کتابی مضمون میں لکھتے ہوئے کہا، “بچوں اور سپاہیوں کے ساتھ وقت گزارنا اور اس امر کا زندہ ثبوت ہونا ایک ورائے حقیقت تجربہ تھا کہ چیزیں بہتر بھی ہو سکتی ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ کسی فرد کی زندگی میں خواہ کتنی ہی مشکلات کیوں نہ آئیں اس کے لیے آگے بڑھنے کی راہ ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔”
اگلا باب

اوکسانا کو کھیلوں کے مقابلوں کے لیے دوبارہ جنوبی کوریا آمد پر خوشی ہے جہاں اس سے پہلے انہیں کشتی رانی کو خیرباد کہنا پڑا تھا۔ 2012 میں پیش آنے والی اس رکاوٹ کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، “میں نے یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ میں کبھی برفانی کھیلوں میں شرکت کے لیے جنوبی کوریا ایک بار پھر آؤں گی۔”