
2020 میں آئرین موسیٹل امریکی محکمہ خارجہ کی خواتین کی کاروباری نظامت کاروں کی اکیڈمی (اے ڈبلیو ای) کی ایک تربیتی کلاس میں شرکت کر رہی تھیں۔ انہیں اپنی تربیت مکمل کرنے کے لیے رات گئے دیر تک جاگنا پڑتا تھا۔
موسیٹل ملائشیا کے کامپونگ بنڈو ٹوہان نامی دیہات میں رہتی تھیں اور وہاں پر انٹرنیٹ کی سروس اچھی نہیں تھی۔ لہذا وہ اُس وقت پڑھائی کرتی تھیں جب انٹرنیٹ کی سروس سب سے زیادہ اچھی ہوتی تھی۔

موسیٹل ملائشیا کے کامپونگ بنڈو ٹوہان نامی دیہات میں رہتی تھیں اور وہاں پر انٹرنیٹ کی سروس اچھی نہیں تھی۔ لہذا وہ اُس وقت پڑھائی کرتی تھیں جب انٹرنیٹ کی سروس سب سے زیادہ اچھی ہوتی تھی۔
وہ اپنی ڈومو وونگی نامی کمپنی کے ذریعے بورنیو کے ریستورانوں اور ہوٹلوں کو کیمیکلز کے بغیر اگائے جانے والی جڑی بوٹیاں سپلائی کرنے کا کاروبار کرتی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ایک چھوٹی بچی کی بھی پرورش کرتھی تھیں۔
اے ڈبلیو ای کے تربیتی کورس ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کے گلوبل مینیجمنٹ کے سکول اور فری پورٹ-میکموران فاؤنڈیشن کی شراکت سے تیار کیے گئے ہیں۔ اِن کورسوں سے موسیٹل کو کاروباری منصوبہ بندی کرنے اور اپنی کمپنی میں توسیع کرنے میں مدد ملی۔
موسیٹل نے حال ہی میں شیل کا سماجی زمرے میں سال “2022 کا لائیو وائر گلوبل انٹرپرینیورشپ ایوارڈ” جیتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ “مجھے (اے ڈبلیو ای) پروگرام میں جو ایک بڑا سبق ملا ہے وہ توجہ مرکوز کرنا ہے۔ مرحلہ وار پروگرام نے مجھے اپنے کاروبار کی منصوبہ بندی کرنے میں مدد کی اور مجھے مارکیٹنگ اور مالیات کے اُن پہلوؤں کے بارے میں سکھایا جو کسی کمپنی کو کامیاب بناتے ہیں۔”
اے ڈبلیو ای کا آغاز 2019 میں ہوا۔ اس سے 100 ممالک سے تعلق رکھنے والیں 25,000 خواتین کاروباری نظامت کاروں کو وہ جانکاری، نیٹ ورک اور رسائی حاصل ہوئی ہے جن کی انہیں اپنا کاروبار شروع کرنے اور موجودہ کاروبار میں توسیع کرنے کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ ملائشیا میں امریکی محکمہ خارجہ کا یہ تربیتی پروگرام 2020 میں شروع کیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت ملائشیا میں اب تک 200 خواتین کے اپنا کاروبار شروع کرنے کے خواب پورا کرنے میں مدد کی جا چکی ہے۔
اے ڈبلیو ای نے موسیٹل کی کم شرحِ سود پر ایک چھوٹا قرض حاصل کرنے میں بھی مدد کی جس سے اُن کے لیے کووڈ-19 کے دوران اپنا کاروبار جاری رکھنے اور اُسے وسعت دینے میں آسانیاں پیدا ہوئیں۔ اس قرض سے انہیں جڑی بوٹیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے قدرتی طریقوں پر تحقیق کرنے میں بھی مدد ملی جس میں نمکیات سے پودوں کو خشک کرنے یا خوراک کی تازگی اور ذائقے کو برقرار رکھنے کے لیے خشک کرنے والی کسی عنصر کا استعمال بھی شامل ہے۔

کورونا کی وبا کے دوران موسیٹل نے ایک غیر سرکاری تنطیم سے اپنی ملازمت چھوڑی اور اپنے کاروبار پر مکمل توجہ دینا شروع کر دی۔ ڈومو وونگی کمپنی اب 20 سے زائد ہوٹلوں اور ریستورانوں کے علاوہ ایک سپر مارکیٹ کو بھی اپنا مال فراہم کرتی ہے۔ اُن کے خوردنی پھول اُن کھانوں کے ذائقے میں اضافہ کرتے ہیں جن میں ملائشین ذائقے کو اُن ذائقوں کے ساتھ ملایا جاتا ہے جنہیں مغربی سیاحوں نے بورنیو میں متعارف کرایا ہے۔
شیل کے ایوارڈ کے ساتھ انعام کے طور پر ملنے والے بیس ہزار ڈالر اور ملائیشیا کی ایک فاؤنڈیشن کی طرف سے گرانٹ میں ملنے والے ایک لاکھ ڈالر کو موسیٹل اپنے کاروبار میں توسیع کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بورنیو کی خواتین کو مالی آزادی کے لیے کام کرنے کے لیے مواقع بھی فراہم کر رہی ہیں۔
موسیٹل ملائشیا کے ڈوسن قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ دیگر مقامی خواتین کوکیمیکلز کے استعمال کے بغیر جڑی بوٹیاں اور خوردنی پھول اگانے کی تربیت دیتی ہیں۔ بورنیو کے پہاڑی علاقے میں کھیتی باڑی کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے ڈومو وونگی کمپنی تمام قابل استعمال جڑی بوٹیوں اور خوردنی پھولوں کو خریدنے پر تیار رہتی ہے۔ اب تک 45 خواتین تربیت مکمل کر چکی ہیں جبکہ مزید 30 کا تربیت حاصل کرنے کا ارادہ ہے۔

موسیٹل نے بتایا کہ “یہ کام اس لیے آسان نہیں ہے کیونکہ تمام [خواتین] پودے اگانے کی اپنی تکنیکوں میں عام طور پر اور بالخصوص نقصان دہ پودوں کو تلف کرنے کے لیے کیمیکلز استعمال کرتی ہیں۔ لہذا ہم انہیں اوس پر نظر رکھنے کے طریقے سکھاتے ہیں اور حقیقی معنوں میں متبادل طریقوں پر بھروسہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔”
اسی اثنا میں موسیٹل کی کمپنی پھلتی پھولتی جا رہی ہے۔ ڈومو وونگی میں دو کل وقتی اور چھ جزوقتی ملازمین کام کرتے ہیں۔ موسیٹل نے بتایا کہ “اس وقت ہماری آٹھ خشک مصنوعات ہیں، چھ کمیونٹی گرین ہاؤس، اور ایک شو فارم ہے۔ اور میں مسلسل کاروبار بڑہاتی جا رہی ہوں۔”
یہ مضمون فری لانس مصنفہ، نیومی ہیمپٹن نے تحریر کیا۔ اس کا ایک طویل ورژن اس سے پہلے محکمہ خارجہ کا تعلیمی اور ثقافتی امور کا بیورو شائع کر چکا ہے۔