صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ کریملن کو انسانی حقوق اور بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزیوں پر جوابدہ ٹھہرانا جاری رکھتے ہوئے، روس کے ساتھ تعاون کو بڑہائے گا۔

جنیوا میں روسی صدر ولاڈیمیر پیوٹن کے ساتھ 16 جون کو ہونے والی ملاقات کے بعد بائیڈن نے کہا کہ “ہم دو طاقتور اور قابل فخر ممالک کے درمیان تعلقات کو منظم کرنے کے لیے ایک منفرد  ذمہ داری نبھانے میں شریک ہیں۔” انہوں نے اس اجلاس کو “اپنے ملک کی ترجیحات اور اپنی اقدار کو واضح طور پر بیان کرنے” کا ایک ذریعہ قرار دیا۔

اپنی بات چیت کے دوران بائیڈن اور پیوٹن نے تزویراتی معاملات میں پیش بینی اور مسلح تصادم کے خطرے اور نیوکلیئر جنگ کے خطرے کو کم کرنے کو یقینی بنانے کے مشترکہ مقصد کو آگے بڑہانے کے لیے نئے تزویراتی استحکام کے مذاکرات منعقد کرنے پر اتفاق کیا۔

امریکہ اور روس نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ یہ مذاکرات “مستقبل میں ہتھیاروں کے کنٹرول اور خطرات کو کم کرنے کے اقدامت کے لیے بنیاد فراہم کریں گے۔ ہم اس اصول کی ازسرنو تصدیق کرتے ہیں کہ نیوکلیئر جنگ جیتی نہیں جا سکتی اور یہ ہرگز نہیں لڑی جانی چاہیے۔”

 جو بائیڈن (سامنے سے بائیں جانب)، ولاڈیمیر پیوٹن (سامنے سے دائیں جانب) اور دیگر افراد میز کے گرد بیٹھے ہیں (© Mikhail Metzel/Sputnik Kremlin/AP Images)
16 جون کو جنیوا میں ہونے والے اجلاس میں صدر بائیڈن، بائیں، اور روسی صدر ولاڈیمیر پیوٹن، دائیں، نے تعاون کے شعبے تلاش کرنے کی کوشش کی۔ (© Mikhail Metzel/Sputnik Kremlin/AP Images)

بائیڈن اور پیوٹن نے امریکہ اور روس کے سائبر سے متعلقہ معاملات پر صلاح مشورے دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا اور شام میں بھوک میں کمی لانے، افغانستان میں دہشت گروہوں کے دوبارہ سر اٹھانے کو روکنے، ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے اور آرکٹک میں تعاون کرنے جیسے دیگر موضوعات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

بائیڈن نے کہا کہ امریکی حکومت انسانی حقوق کا دفاع کرنا جاری رکھے گی اور روسی حکومت کو امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے خلاف کاروائیوں پر ذمہ دار ٹھہرائے گی۔ اپریل میں امریکہ نے روسی عہدیداروں پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاں سائبر دراندازیوں اور انتخابی مداخلت کی کوششوں سمیت  “غیرذمہ دارانہ” رویے کی بنا پر پابندیاں عائد کر دیں تھیں۔ 20 سے زائد ممالک نے اِن پابندیوں کی حمایت کی تھی۔

پیوٹن کے ساتھ بات چیت میں بائیڈن نے یوکرین کی سرحد کے ساتھ روسی افواج کے اجتماع کی موجودگی میں “یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے ساتھ امریکہ کی غیرمتزلزل وابستگی” کا اعادہ کیا۔

 ڈائس پر کھڑے جو بائیڈن ہاتھوں سے اشارہ کر رہے ہیں۔ (© Patrick Semansky/AP Images)
بائیڈن 16 جون کو جنیوا میں پیوٹن کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں نامہ نگاروں سے باتیں کر رہے ہیں۔ (© Patrick Semansky/AP Images)

انہوں نے اپوزیشن لیڈر الیکسی نیوالنی کی قید سمیت روسی حکام کی اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف کاروائیوں پر تنقید کی۔

بائیڈن نے اُن صحافیوں کا دفاع کیا جنہیں روس میں رپورٹنگ کرنے کی وجہ سے  گرفتاری کے خطرے کا سامنا رہتا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی (آر ایف ای/آر ایل) کا نمایاں طور پر ذکر کیا جس پر روس کے ضابطہ کاروں نے اُن پابندیوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے 20 لاکھ  ڈالر کے جرمانے اس لیے کیے جو روس نے آر ایف ای/آر ایل کو  “دشمن کا ایجنٹ” قرار دے کر اس پر لگا رکھیں ہیں۔

اگرچہ آر ایف ای/آر ایل کی فنڈنگ امریکی حکومت کرتی ہے تاہم اس کی اداراتی آزادی کو امریکی قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے۔

بائیڈن نے یہ تنبیہ بھی کی کہ امریکہ انتخابی مداخلت سمیت امریکی خود مختاری کی خلاف ورزی کی تمام کوششوں کا جواب دے گا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے روس کے ساتھ، تصادم کے بیج بونے کے لیے نہیں بلکہ امریکہ کی بنیادی اقدار کی حمایت میں کھڑا ہونے کے لیے اختلافی نکات کو بھی اٹھایا۔

بائیڈن نے کہا، “امریکہ کا کوئی بھی صدر امریکی عوام کے اعتماد کو برقرار نہیں رکھ سکتا اگر وہ ہماری اُن جمہوری اقدار کے دفاع کی بات نہ کرے، عالمی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی حمایت نہ کرے جو سب مردوں اور عورتوں کو حاصل ہیں۔”