ہر چار سال بعد واشنگٹن میں بڑے ہجوموں کے سامنے امریکی صدر حلف اٹھاتا ہے۔ عام طور پر صدور موسیقی کے کنسرٹ، پریڈوں اور “بال” نامی سماجی اجتماعات کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس طرح کئی دنوں پر پھیلی پرمسرت تقریبات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
لیکن جب جوزف آر بائیڈن جونیئر 20 جنوری کو امریکہ کے چھیالیسویں صدر بنیں گے تو نیشنل مال پر ہوا میں لہراتے ہوئے امریکی پرچم بڑے ہجوموں کی جگہ لیں گے۔ معمول کے مارچ کرتے بینڈوں کی قطاروں کی بجائے ملک بھر سے تعلق رکھنے والے فن کار ورچوئل پریڈ میں شرکت کریں گے۔
نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے بچنے کی خاطر حکام نے پرمسرت تقریبات کو مختصر کر دیا ہے۔ اس وبا کی وجہ سے بڑی تقریبات منسوخ کر دی گئی ہیں۔ اس کے باوجود بائیڈن کے صدارتی منصب سنبھالنے کی تقریبات میں طویل عرصے سے چلی آ رہی روایات اور ماضی کی تقریبات کے نئے تخلیقی تصورات کو شامل کیا گیا ہے۔
روایت میں بہتری لانا
بائیڈن اور کاملہ ڈی ہیرس کیپیٹل بلڈنگ کے مغربی حصے کے باہر اپنے عہدوں کا اسی طرح حلف اٹھائیں گے جیسے اُن سے پہلے صدور اور نائب صدور اٹھاتے رہے ہیں۔ تاہم اُن کے سامنے ہجوم میں لوگوں کی تعداد کم ہوگی۔ منتظمین نے کانگریس کے اراکین اور دیگر لوگوں کو تقسیم کرنے کے لیے دو لاکھ ٹکٹ دینے کی بجائے ہر ایک قانون ساز کو ایک ٹکٹ اُس کے لیے اور ایک اُس کے مہمان کے لیے دیا ہے۔
2021ء کی حلف برداری کا مرکزی خیال “امریکہ متحد” ہے۔ چونکہ عوام کو گھروں میں بیٹھ کر اِن تقریبات کو دیکھنے کا کہا گیا ہے اس لیے منتظمین لوگوں کی شرکت کو آسان بنانے کے لیے سوشل میڈیا اور ورچوئل متبادلات کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ صدارتی حلف برداری کی کمیٹی کا کہنا ہے کہ اس کی ایک مثال اس تقریب میں ایسی ویڈیوز کا دکھایا جانا ہے جن میں لوگوں نے انتقال اقتدار کے بارے میں پیغامات والے کتبے اٹھا رکھے ہوں گے۔
حلف برداری کی کمیٹی کے سربراہ، ٹونی ایلن نے کہا، “حلف برداری کی تقریب کی سرگرمیاں ہماری مشترکہ اقدار کی عکاسی کریں گیں جو کہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ہم جدا ہونے کی بجائے متحد ہو کر زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح کی یاد دہانی ہے جس طرح کی یاد دہانی لاطینی زبان کا ہمارا نصب العین ‘ای پلوربس یونم’ یعنی ‘بہت سوں سے مل کر ایک’ کراتا ہے۔”
بائیڈن نے حلف برداری کے موقع پر امریکی محکمہ خارجہ کی ‘بلیئر ہاؤس’ نامی تاریخی عمارت میں ٹھہرنے کی دعوت قبول کر لی ہے۔ یہ عمارت وائٹ ہاؤس کا مہمان خانہ ہے۔
حلف بردارکی تقریب میں، جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے سابق صدر، تقدس مآب لیو او ڈون ون ابتدائی دعائیہ کلمات ادا کریں گے اور جارجیا کے آگ بھجانے والے عملے کی رکن، اینڈریا ہال وفاداری کا عہد کرنے کی قیادت کریں گیں۔ پہلی نوجوان قومی شاعرہ، امینڈا گورمین نظم پڑھکر سنائیں گی اور ولمنگٹن، ڈیلویئر کے بیتھل افریقن میتھوڈسٹ ایپسکوپل چرچ کے تقدس مآب سلویسٹربیمن اختتامی دعا مانگیں گے۔

لیڈی گاگا قومی ترانہ گائیں گی، اور گلوکارہ جینیفر لوپیز یو ایس کیپیٹل کی عمارت کے باہر مغربی حصے پر اپنے فن کا مظاہرہ کریں گی۔ جو دیگر امریکی گلوکار اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے اُن میں جسٹن ٹمبرلیک، جون بون جووی، ڈیمی لوواٹو اور اینٹ کلیمنز شامل ہیں۔
شام کو بائیڈن کی حلف برداری کا جشن منانے کے لیے اداکار ٹام ہینکس ایک خصوصی ٹیلی ویژن پروگرام کی میزبانی کریں گے۔
اور ہاں اُن دو لاکھ ٹکٹوں کا کیا ہوگا جو اس بار نہیں دیئے جا رہے؟ اُن لوگوں کی نمائندگی کرنے کے لیے جو کووڈ-19 کی وجہ سے شامل نہیں ہوسکتے، نیشنل مال پر تقریباً دو لاکھ جھنڈے لگائے جائیں گے۔ (نیشنل مال کیپیٹل بلڈنگ کی مغربی سمت میں واقع ایک بڑا پارک ہے۔)
بائیڈن اس تقریب کے فوراً بعد کمانڈر انچیف کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ وہ فوجی دستوں کا معائنہ کریں گے اور وائٹ ہاؤس جاتے ہوئے اُن کے ساتھ فوجی بینڈ اور آنر گارڈز بھی چلیں گے۔
1600 پینسلوینیا ایونیو (وائٹ ہاؤس) میں پہنچنے سے پہلے بائیڈن، اُن کی اہلیہ (جِل)، ہیرس اور اُن کے شوہر (ڈگلس ایمہوف) آرلنگٹن کے قومی قبرستان میں نامعلوم سپاہی کے مقبرے پر چادر چڑھائیں گے۔ اس موقع پر سابق صدور باراک اوباما، جارج ڈبلیو بش اور بل کلنٹن، اپنی بیویوں کے ہمراہ اُن کے ساتھ شامل ہوں گے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے سابقہ سینیئر فیلو، سٹیفن ہیس واشنگٹن میں حلف برداری کی بہت سی تقریبات دیکھ چکے ہیں۔ اُن کا بائیڈن کی تقریر کوغور سے سننے کا پروگرام ہے۔
ہیس نے کہا، “جمہوریت میں حلف برداری ایک زبردست تقریب ہوتی ہے اور نئے صدر کی تقریر میں تبدیلی ایک اہم نقطہ ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی تقریر ہوتی ہے جس میں صدر امیدوار نہیں رہتا اور وہ صدر بننا شروع کر دیتا ہے۔ وہ اپنے حلقے کے ووٹروں کا نہیں رہتا بلکہ اس کے حلقے میں سارے امریکی شامل ہو جاتے ہیں۔”