بائیڈن کی کابینہ کے ارکان کی توثیق کا عمل جاری ہے اور وہ اپنا کام شروع کر رہے ہیں۔ ذیل میں اُن لوگوں کے نام اور تصاویر دی جا رہی ہیں جو اس اہم گروپ میں شامل ہیں۔ (ستارے کا نشان یہ ظاہر کرتا ہے کہ نامزد کردہ فرد کی سینیٹ کی جانب سے توثیق ہونا ابھی باقی ہے۔)

جب صدر کی کابینہ کا اجلاس ہوتا ہے تو اس کے ارکان مہاگنی کی لکڑی کی بنی ہوئی کانفرنس میز کے ارد گرد بیٹھتے ہیں۔ صدر میز کی دائیں طرف درمیان میں بیٹھتے ہیں اور نائب صدر دوسری طرف اُن کے سامنے بیٹھتی ہیں۔ یہ کہ میز کے اردگرد کون کون بیٹھے گا ہر انتظامیہ کا انفرادی فیصلہ ہوتا ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کابینہ کی سطح کا درجہ کس کو دیا جاتا ہے۔ اگرچہ نشستوں کے چارٹ میں تبدیلی آ سکتی ہے لیکن روایت یہ چلی آ رہی ہے کہ صدر یا نائب صدر کے قریب بیٹھنے والے کابینہ کے ارکان وہاں اس لیے بیٹھتے ہیں کیونکہ جن محکموں کی وہ نمائندگی کرتے ہیں وہ پہلے وجود میں آئے (یعنی یہ ترتیب محکموں کے قیام کی تاریخوں کے حساب سے طے پاتی ہے۔) (State Dept./Helen Efrem)
(State Dept./H. Efrem)
نائب صدر: کملا ہیرس ایک وکیل ہیں جنہوں نے 2017ء سے لے کر نائب صدر کا حلف اٹھانے تک امریکی سینیٹ میں ریاست کیلی فورنیا کی نمائندگی کی۔ اس سے قبل انہوں نے اوک لینڈ، کیلی فورنیا میں ضلع کی نائب سرکاری وکیل؛ سان فرانسسکو کی ضلعی سرکاری وکیل؛ اور ریاست کیلی فورنیا کی اٹارنی جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں۔
.
وزیر خارجہ: اینٹونی بلنکن اوباما انتظامیہ کے دوران نائب وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے نائب مشیر رہ چکے ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے یورپی ممالک، یورپی یونین اور نیٹو کے ساتھ تعلقات کے بارے میں صدر کلنٹن کے پرنسپل مشیر کے طور پر کام کیا۔
وزیر خزانہ: جینیٹ یلین ایک ماہر اقتصادیات ہیں اور انہیں تعلیمی اور سرکاری شعبوں میں دہائیوں کام کرنے کا تجربہ حاصل ہے۔ وہ امریکی تاریخ کی پہلی ایسی فرد ہیں جو وائٹ ہاؤس کی اقتصادی مشیروں کی کونسل، فیڈرل ریزرو بنک اور وزارت خزانہ کی سربراہی کر چکی ہیں۔
اٹارنی جنرل: میرک گارلینڈ نے امریکہ میں وفاقی اپیلوں کی سب سے اہم عدالت، یعنی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے سرکٹ میں چیف جج کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ انہیں 1997ء میں اس عدالت کے لیے نامزد کیا گیا اور وہ 2013ء میں اس کے چیف جج بنے۔
.
وزیر دفاع: لائیڈ آسٹن امریکی فوج کے چار ستارہ ریٹائرڈ جنرل ہیں۔ وہ مشرق وسطی اور وسطی اور جنوبی ایشیا میں مشترکہ کاروائیوں کی قیادت کر چکے ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے عراق اور شام میں دہشت گرد تنظیم، داعش کے خلاف کاروائیوں کی نگرانی بھی کی۔
وزیر زراعت: ٹام ولسیک، اوباما انتظامیہ میں وزیر زراعت بننے سے قبل دو مرتبہ ریاست آئیووا کے گورنر رہے۔ بائیڈن کی طرف سے اُنہیں وزیر زراعت مقرر کیے جانے سے قبل، وہ ڈیری کی برآمدات کی امریکی کونسل کی قیادت کر چکے ہیں۔ ولسیک دوسری مرتبہ وزیر زراعت کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
وزیر داخلہ: ریاست نیو میکسیکو کی ڈیب ہالینڈ کا شمار امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان کی 2018ء میں منتخب ہونے والی آبائی امریکی خواتین میں ہوتا ہے۔ اس سے قبل وہ ریاست کی ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ رہیں اور انہوں نے قبائلی خودمختاری اور قدرتی وسائل کو تحفظ فراہم کیا۔
وزیر محنت: مارٹی والش، بائیڈن انتظامیہ میں بوسٹن کے میئر کے طور پر خدمات سر انجام دینے کے بعد شامل ہو رہے ہیں۔ بوسٹن میں وہ شہر کے بانڈ کی قبولیت میں بہتری لے کر آئے۔ اس سے قبل انہوں نے ریاست میسا چوسٹس کے ایوان نمائندگان میں خدمات انجام دیں جہاں انہوں نے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور محنت کشوں کو تحفظ فراہم کرنے پر کام کیا۔
وزیر تجارت: جینا ریمانڈو سابقہ شراکتی سرمایہ کار ہیں۔ جب بائیڈن نے انہیں تجارت کے محکمے کی سربراہی کرنے کا کہا تو وہ ریاست رہوڈ آئی لینڈ کے گورنر کی حیثیت سے اپنی دوسری مدت مکمل کر رہی تھیں۔ اس سے قبل وہ ریاست رہوڈ آئی لینڈ کی ٹریژری (خزانے) کی سربراہ تھیں۔
ہاؤسنگ اور شہری ترقی کی وزیر: مارثیا فج اوہائیو کی ایک کاؤنٹی کے سرکاری وکیل کے دفتر میں کام کرنے کے علاوہ میئر کے طور پر بھی کام کر چکی ہیں۔ وہ 2008ء میں امریکی ایوان نمائندگان کی رکن منتخب ہوئیں۔ کانگریس میں انہوں نے محنت، تعلیم اور زرعی مسائل پر توجہ مرکوز کی۔
صحت اور انسانی خدمات کے وزیر: زیویر بسیرا ریاست کیلی فورنیا کے اٹارنی جنرل تھے اور انہوں نے عدالت میں صحت کی سستی سہولتیں فراہم کرنے کے قانون کا دفاع کرنے والے ڈیموکریٹک ریاستوں کے اٹارنی جنرلوں کے اتحاد کی قیادت کی۔ اس سے پہلے بسیرا 12 مرتبہ امریکی ایوان نمائندگان کے رکن رہ چکے ہیں۔
وزیر توانائی: جینیفر گرینہوم نے مشی گن کے گورنر کی حیثیت سے دو مرتبہ خدمات انجام دیں اور ریاست کو اقتصادی بحران سے نکالا۔ انہوں نے مصنوعات سازی کو بچاتے ہوئے اور صاف توانائی جیسے نئے شعبوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے، مشی گن کی کاروں کی صنعت کو مستحکم بنایا۔
ٹرانسپورٹیشن کے وزیر: پیٹ بوٹیجج ریاست انڈیانا کے ساؤتھ بینڈ شہر کے دو مرتبہ مئیر رہ چکے ہیں۔ اس دوران انہوں نے اندرونِ شہر سڑکوں اور روزگار کے مواقعوں کو بہتر بنایا۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے رہوڈ سکالر ہیں۔ انہوں نے 2007ء میں امریکی بحریہ میں ریزرو کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اور افغانستان میں تعینات رہے۔
سابقہ فوجیوں کے امور کے وزیر: ڈینس میکڈانا، اوباما انتظامیہ میں وائٹ ہاؤس کے چیف آف سٹاف، قومی سلامتی کے نائب مشیر اور قومی سلامتی کی کونسل کے چیف آف سٹاف رہ چکے ہیں۔ وہ نوٹر ڈیم یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔
وزیر تعلیم: میگل کارڈونا ریاست کنیٹی کٹ کے تعلیمی نظام کے سربراہ ہیں۔ وہ اس ریاست میں سکول ٹیچر اور پرنسپل کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کنیٹی کٹ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ دو زبانوں میں دی جانے والی تعلیم اور طلبا کی کامیابیوں میں اضافہ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔
امریکہ کے ماحولیاتی تحفظ کے ادارے کے منتظم: مائیکل ریگن نے اُس ادارے کی سربراہی کی جو شمالی کیرولائنا کے ماحولیاتی نظام کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کلنٹن اور جارج ڈبلیو بش انتظامیوں کے دوران امریکہ کے ماحولیاتی تحفظ کے ادارے میں ہوا کے معیار پر کام کیا۔
ہوم لینڈ سکیورٹی کے وزیر: ایلیخاندرو میورکس نے ہوم لینڈ سکیورٹی میں نائب وزیر کی حیثیت سے ایبولا اور زیکا وائرس کی وباؤں کے مقابلے کے امریکی ردعمل کی قیادت کی۔ وہ وفاقی وکیل اور امریکہ کی سٹیزن شپ اور امیگریشن سروسز کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔
نیشنل انٹیلی جنس کی ڈائریکٹر: ایورل ہینز صدر اوباما کی معاون اور اُن کی پرنسپل مشیر برائے قومی سلامتی تھیں۔ اُس سے قبل وہ امریکی حکومت میں سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی میں اور کئی قانونی عہدوں پر کام کرتی رہی ہیں۔
انتظام کاری اور بجٹ کا ڈائریکٹر: فیصلہ ہونا باقی ہے
اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب: لنڈا تھامس-گرین فیلڈ نے امریکی فارن سروس میں 35 برس خدمات انجام دیں جن میں لائبیریا میں امریکی سفیر سمیت، چار براعظموں پر امریکہ کی نمائندگی کرنا بھی شامل ہے۔ واشنگٹن میں محکمہ خارجہ میں اپنی تعیناتی کے دوران انہوں نے محکمے کے افریقی امور کے بیورو کی سربراہی کی۔
امریکی نمائندہِ تجارت: کیتھرین ٹائے ہارورڈ کی تربیت یافتہ وکیل ہیں اور ڈیمو کریٹک پارٹی کی طرف سے ایوان نمائندگان کی ٹیکس اور مالی امور کی کمیٹی کے تجارتی معاملات کی سربراہ وکیل ہیں۔ اس سے پہلے وہ امریکی نمائندہِ تجارت کے دفتر کی سربراہ وکیل اور نجی قانونی کمپنیوں میں وکیل کے طور پر کام کر چکی ہیں۔
چھوٹے کاروباروں کے ادارے کی منتظمہ: ایزابیل گزمین کیلی فورنیا میں چھوٹے کاروباروں کی سب سے بڑی حامی ہیں۔ وہ نئی کمپنیوں کو مشورے دینے والی ایک مشاورتی کمپنی اور ایک بنک کے چھوٹے کاروباروں کی مدد کرنے والے پروگرام کی سربراہی بھی کر چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ چھوٹے کاروباروں کے ادارے میں اوباما کی ڈپٹی چیف آف اسٹاف کے طور پر بھی کام کر چکی ہیں۔
اقتصادی کونسل کے مشیروں کی سربراہ: سسلیا راؤز اقتصادیات کے محنت کے شعبے کی ماہر ہیں اور ان کے پاس پرنسٹن یونیورسٹی کی ڈین کا تجربہ بھی ہے۔ اس سے قبل وہ صدر اوباما کی اقتصادی کونسل کے مشیروں میں بھی شامل رہ چکی ہیں جس دوران انہوں نے اقتصادی بحالی اور ملازمتیں فراہم کرنے پر کام کیا۔
سائنس اور ٹکنالوجی پالیسی کے دفتر کے ڈائریکٹر: ماہر جینیات اور ماہر حیاتیات، ایرک لینڈر ہارورڈ یونیورسٹی اور میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی میں پڑھاتے ہیں۔ اس سے پہلے وہ اوباما انتظامیہ کو سائنس کے بارے میں مشورے دیتے تھے اور انہوں نے انسانی جینیات کے پراجیکٹ کی سربراہی کی۔
چیف آف سٹاف: رون کلین ایک وکیل اور سیاسی مشیر ہیں۔ وہ صدر کلنٹن اور صدر اوباما کے معاون رہ چکے ہیں۔ وہ دو نائب صدور (ایلگور اور جو بائیڈن) کے چیف آف سٹاف کے طور پر کام کرنے کے علاوہ سینیٹ کی انصاف کی کمیٹی کے رکن اور تب کے سینیٹر، بائیڈن کے سربراہ وکیل بھی رہ چکے ہیں۔